1: صحابہ کرامؓ کے ناموں پر نام رکھنے کے بارے میں صحیح موقف کیا ہے؟ زید کہتا ہے کہ علماء کرام فرماتے ہیں: ’’ صحابہ کرامؓ کے ناموں میں نام کے معنیٰ نہیں دیکھے جاتے، بلکہ ان کی شخصیت کے پیشِ نظر ان کے نام رکھے جاتے ہیں‘‘۔
جب کہ بکر کہتا ہے کہ مفتی سعید احمد پالنپوریؒ نے لکھا ہے:
’’اسی طرح ایک خیال یہ ہے کہ صحابہ/صحابیات کے نام رکھنے چاہئیں، حالاں کہ ان کے نام ان کے کافر ماں باپ کے رکھے ہوئے ہیں،انھوں نےخود مسلمان ہونے کے بعد وہ نام نہیں رکھے ،اس لیے ان ناموں کے معنی دیکھنے چاہئیں، ہاں صحابہ نے اپنی اولاد کے جو نام رکھے ہیں وہ بے تکلف رکھے جائیں‘‘ ۔
(تحفۃ القاری،مفتی سعید احمد پالنپوریؒ،ج:11،ص:159،ط: مکتبۂ حجاز دیوبند،2015ء)
جب کہ عمرو کہتا ہے کہ یہ بھی بعض علماء کرام کا موقف ہے کہ: ’’صحابہ کرامؓ کے ناموں کی نسبت ٗ ان ناموں کے معانی سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے، البتہ وہ نام جن کا حضور ﷺ کو علم نہ ہو سکا ، یا تبدیل کرنے کے باوجود پہلا نام مروج رہا ، ان کا معاملہ الگ ہے۔‘‘
2: اگر کسی صحابیؓ کے نام کے معنیٰ درست ظاہر نہ ہوتے ہوں، تو اس نام کو رکھنے کا حکم کیا ہے؟ مثلا ضِرار،خدیجۃ،حرب،مرۃ،جمرۃ،حزن وغیرہ، صحابہ کرامؓ کے ناموں پر نام رکھنے میں ان کے ناموں کے معنی کو دیکھا جائے گا یا نہیں ؟
"عن ابن المسيب، عن أبيه: أن أباه جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: (ما اسمك). قال: حزن، قال: (أنت سهل). قال: لا أغير اسما سمانيه أبي، قال ابن المسيب: فما زالت الحزونة فينا بعد. (صحیح بخاری:6190) قال المؤلف: قد قدمنا قبل هذا أن النبي عليه السلام كان عجبه تغيير الاسم القبيح بالاسم الحسن على وجه التفاؤل والتيمن؛ لأنه كان يعجبه الفأل الحسن، وقد غير رسول الله عدة أسامى، غير برة بزينب وحول اسم عبد الله بن عمرو بن العاص إلى عبد الله كراهة لاسم العصيان الذى هو مناف لصفة المؤمن، وإنما شعار المؤمن الطاعة وسمته العبودية. قال الطبرى: فلا ينبغى لأحد أن يتسمى باسم قبيح المعنى، ولا باسم معناه التزكية والمدجح، ولا باسم معناه الذم والسب، بل الذى ينبغى أن يسمى به ما كان حقًا وصدقًا، كما أمر الذى سمى بنه القاسم أن يسميه عبد الرحمن، إذ كان الصدق الذى لا شك فيه أنه عبد الرحمن فسماه بحقيقة معناه، وإن كانت الأسماء العوارى لم توضع على المسميات لصفاتها بل للدلالة على أشخاصها خشية أن يسمع سامع باسم العاصى فيظن أن ذلك له صفة، وأنه إنما سمى بذلك لمعصية ربه، فحول ذلك عليه السلام إلى ما لإذا دعى به كان صدقًا… قال الطبرى: وليس تغيير رسول الله ماغير من الأسماء على وجه المنع للتسمى بها؛ بل ذلك على وجه الاختيار؛ لأن الأسماء لم يسم لها لوجود معانيها فى المسمى بها، وإنما هى للتمييز، ولذلك أباح المسلمون أن يتسمى الرجل القبيح بحسن، والرجل الفاسد بصالح، يدل على ذلك قول جد ابن المسيب للنبى عليه السلام حين قال له أنت سهل: ماكنت أغير اسما سمانيه أبى، فلم يلزمه الانتقال عنه على كل حال، ولا جعله بثباته عليه آثما بربه، ولو كان آثما بذلك لجبره على النقلة عنه، إذ غير جائز فى صفته عليه السلام أن يرى منكرًا وله إلى تغييره سبيل."
(شرح صحيح البخاري لابن بطال9/347-348)
"عن ابن عمر أن ابنة لعمر كان يقال لها: عاصية، فسماها رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم جميلة."
(صحیح مسلم:2139)
3: انبیاءکرام علیہم السلام کے ناموں پر نام رکھنے کے بارے میں صحیح موقف کیا ہے؟ انبیاءکرام علیہم السلام کے ناموں پر نام رکھنے میں ٗ ان کے ناموں کے معنیٰ کو دیکھا جائے گا یا نہیں ؟ اگر ان کے ناموں کےمعنی معلوم نہ ہوں، یا ا ن کے ناموں کے معنی میں کوئی خوبی ظاہر نہ ہوتی ہو،تب کیا حکم ہے؟
"تسموا بأسماء الأنبياء، وأحب الأسماء إلى الله عز وجل عبد الله وعبد الرحمن، وأصدقها حارث وهمام، وأقبحها حرب ومرة." (أبو داود: 4950) ’’نبی ﷺ نے اپنے ایک صاحبزادے کا نام ابراہیم رکھا ہے،مگر وہ جد امجد تھے محض نبی نہیں تھے،اور آدمی اپنے اسلاف کا تذکرہ باقی رکھنا چاہتا ہے۔علاوہ ازیں : آپ ﷺ نے اپنی والاد کے نام :قاسم،عبداللہ،طیب اور طاہر رکھے ہیں یا لوگ عبدللہ کو طیب و طاہر کہتے تھے،اور اپنے نواسوں کے نام:حسنؓ،حسینؓ اور محسنؓ رکھے ہیں،اور صحابہ نے بھی عام طور پر انبیاء کے نام نہیں رکھے،اس لئے انبیاء کے نام رکھنے کی فضیلت کی کوئی دلیل نہیں،اس لئے حضرت رحمہ اللہ نے دوسرے کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلائی ہے۔‘‘
(تحفۃ القاری،مفتی سعید احمد پالنپوریؒ،ج:11،ص:159،ط: مکتبۂ حجاز دیوبند،2015ء)
واضح رہے کہ احادیث میں اچھے نام رکھنے کی جو ترغیب دی گئی ہےوہ بطورِ تفاؤل( نیک فالی کے طور پر) دی گئی ہے؛کیوں کہ نام رکھنے کااصل مقصد تو محض ایک انسان کو دوسرے سے ممتاز کرنا ہےاور یہ امتیاز ہر قسم کے نام سے حاصل ہوسکتا ہے،جب کہ صحابہ کے ناموں میں تفاؤل ( نیک فالی) چوں کہ ان کی شخصیت کے تعلق سے ہی ظاہر ہے، نیز خود صحابہ سے اپنے بچوں کے نام دیگر صحابہ کے نام پر تفاؤلاً رکھنا ثابت بھی ہے؛ اس لیے صحابہ کے ناموں میں معانی کی رعایت کرنالازم نہیں،تاہم صحابہ کرام کے وہ نام جن کوحضور ﷺ نےخود تبدیل فرمادیاہو یاتبدیل کرنے کاحکم دیاہو،یا کم ازکم انہیں سن کرناگواری کااظہار فرمایاہو، تو ان ناموں کو رکھنا،نص من جانب الشرع آنے کی وجہ سے درست نہیں ہوگا۔
3:جن انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کا تذکرہ ناموں کے ساتھ قرآنِ پاک اور احادیثِ مبارکہ میں موجود ہے توتبرک اور تفاؤل کے طور پر معانی کی رعایت کیے بغیران ناموں کو رکھنانہ صرف جائز ہے،بلکہ مستحب بھی ہے۔
باقی سوال میں ذکرکردہ تحفۃ القاری کی عبارت میں انبیاء کانام نہ رکھنے کی بظاہر عدمِ فضیلت کی بنیاد دو چیزوں کو بنایاگیا ہے:
1:حضورﷺ نے اپنی اولاد اور نواسوں میں سے سوائے ایک بیٹے کے کسی کانام نبی کے نام پر نہیں رکھا،اور صاحبزادہ ابراہیم کانام بھی ایک نبی کے نام پر جدِ امجد ہونے کی وجہ سے رکھاہے۔
2:صحابہ نے بھی عام طور پر انبیاء کے نام نہیں رکھے ہیں۔
حالاں کہ خود اللہ کے نبی علیہ الصلاۃ والسلام سے انبیاء کے نام رکھنے کا امرثابت ہے،تو پھر اس کی فضیلت کےلیے کسی دوسری چیز کی ضرورت کیوں کر ہوگی؟نیز ابراہیم نام رکھنے میں نبی کانام ہونے یا جدِ امجد کانام ہونے کااحتمال صرف آپ ﷺ کی شخصیت سےمتعلق تھا،جب کہ روایت میں موجود ہےکہ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے سب سے بڑے بیٹے کانام بھی اللہ کے نبی ﷺ نے ابراہیم ہی رکھاتھا،اسی طرح خود اللہ کے نبی علی السلام سے ایک دوسرے صحابی کانام یوسف رکھنابھی ثابت ہے۔
رہی یہ بات کہ صحابہ نے انبیاء کے ناموں پر نام نہیں رکھےہیں،تو یہ بات بھی بظاہرحضرت کا تفرد معلوم ہوتا ہے؛ کیوں کہ کئی صحابہ کےنام انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کے ناموں پر موجود ہیں،ذیل میں چند نام نقل کیے جاتے ہیں:
یعقوب بن اوس رضی اللہ عنہ (اسد الغابہ،ج: ٥، ص: ٤٨٤، ط: دار الکتب العلمیۃ)، نوح بن مخلد (ایضاً، ج: ٥، ص: ٣٤٦)،ایوب بن بشیر (ایضاً، ج: ١، ص: ٣٤٧)،یوسف بن عبد اللہ (ایضاً، ج: ٥، ص: ٤٩٢) زکریا بن علقمہ (ایضاً، ج: ٢، ص: ٣٢٠) ۔۔ ۔مزید تفصیل کے لیے اسد الغابہ کامطالعہ کیاجاسکتا ہے۔
شرح صحيح البخاري لابن بطال میں ہے:
"وفى قوله: (غفار غفر الله لها، وأسلم سالمها الله) ، الدعاء للمؤمنين بالمغفرة، تفاءل لهما صلى الله عليه وسلم ، من أسمائهما فألا حسنا، وكان يعجبه الفأل الحسن."
(ص:٧،ج:٣،کتاب الإستسقاء،باب دعاء النبي صلى الله عليه وسلم اللهم اجعلها عليهم سنين كسني يوسف،ط:مكتبة الرشد)
فتح الباري میں ہے:
"قال هشام بن عروة فأخبرني أبي قال: لما قتل الذين ببئر معونة ... وأصيب فيهم يومئذ عروة بن أسماء بن الصلت فسمي عروة به، ومنذر بن عمرو سمي به منذرا ... قوله: (فسمي عروة به) ... أي أن الزبير سمى ابنه منذرا باسم المنذر بن عمرو هذا، فيحتمل أن تكون الرواية بفتح السين على البناء للفاعل وهو محذوف والمراد به الزبير، أو المراد به أبو أسيد لما في الصحيحين أن النبي صلى الله عليه وسلم أتي بابن لأبي أسيد فقال: ما اسمه؟ قالوا: فلان، قال: بل هو المنذر. قال النووي في شرح مسلم: قالوا: إنه سماه المنذر تفاؤلا باسم عم أبيه المنذر بن عمرو، وكان استشهد ببئر معونة، فتفاءل به ليكون خلفا منه، وهذا مما يؤيد البحث الذي ذكرته في عروة."
(ص:٣٩١،ج:٧،کتاب المغازي،باب غزوة الرجيع،ط:دار المعرفة)
إرشاد الساري میں ہے:
ولكن (اسمه المنذر فسماه) عليه الصلاة والسلام (يومئذ المنذر) تفاؤلا أن يكون له علم ينذر به قاله الداودي ومثله قول الطيبي لعله عليه الصلاة والسلام تفاءل به ولمح إلى معنى التفقه في الدين في قوله تعالى: فلولا نفر من كل فرقة منهم طائفة إلى قوله: ولينذروا قومهم."
(ص:١١٢،ج:٩،كتاب الأدب،باب تحويل الإسم إلي إسم آخر،ط:المطبعة الكبري الأميرية)
حسن التنبه لما ورد في التشبه میں ہے:
"ينبغي التسمية بأسماء الصالحين تفاؤلاً، وتحسين التسمية بتغيير الاسم القبيح؛ فالاسم الحسن سنة معروفة روى الإمام أحمد، وابن أبي شيبة، ومسلم، والترمذي عن المغيرة ابن شعبة رضي الله تعالى عنه قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى نجران، فقالوا: إنكم تقرؤون: يا اخت هارون وبين موسى وعيسى ما شاء الله من السنين، فلم أدر ما أجيبهم به حتى رجعت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إنهم كانوا يسمون بأنبيائهم، والصالحين قبلهم. وروى ابن عساكر عن علي رضي الله تعالى عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ما من قوم يكون فيهم رجل صالح فيموت فيخلف فيهم مولود فيسمونه باسمه إلا خلفهم الله تعالى بالحسنى. وعن عائشة رضي الله تعالى عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اطلبوا الخير عند حسان الوجوه، وتسموا بخياركم، وإذا أتاكم كريم قوم فأكرموه."
(ص:٢٠٨،ج:٢،القسم الأول،باب التشبه بالصالحين رضي الله عنهم،ط:دار النوادر)
صحيح مسلم میں ہے:
"عن أبي موسى قال: ولد لي غلام. فأتيت به النبي صلى الله عليه وسلم. فسماه إبراهيم، وحنكه بتمرة."
(ص:١٦٩٠،ج:٣،کتاب الآداب،باب استحباب تحنيك المولود،ط:دار إحياء التراث)
شرح النووي علي صحيح مسلم میں ہے:
"(إنهم كانوا يسمون بأنبيائهم والصالحين قبلهم) استدل به جماعة على جواز التسمية بأسماء الأنبياء عليهم السلام وأجمع عليه العلماء إلا ما قدمناه عن عمر رضي الله عنه وسبق تأويله وقد سمى النبي صلى الله عليه وسلم ابنه إبراهيم وكان في أصحابه خلائق مسمون بأسماء الأنبياء."
(ص:١١٧،ج:١٤،کتاب الآداب،باب من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين وإنما أنا قاسم والله يعطي،ط:دار إحياء التراث العربي)
مرقاة المفاتيح میں ہے:
"(وعن يوسف بن عبد الله) : رضي الله تعالى عنه (ابن سلام) : بتخفيف اللام، صحابيان ... قال المؤلف: يوسف بن عبد الله يكنى أبا يعقوب، وكان من بني إسرائيل من ولد يوسف بن يعقوب عليهما السلام ولد في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم وحمل إليه، وأقعده في حجره، وسماه يوسف ومسح رأسه ومنهم من يقول: له رواية ولا رؤية له، عداده في أهل المدينة. قلت: أصل الشمائل وإطلاق رواية أبي داود من غير أن يقول مرسلا، يدل على أن له رؤية فتأمل."
(ص:٢٧٢١،ج:٧،کتاب الأطعمة،ط:دار الفكر،بيروت)
الفتاوي الهندية میں ہے:
"وفي الفتاوى التسمية باسم لم يذكره الله تعالى في عباده ولا ذكره رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا استعمله المسلمون تكلموا فيه والأولى أن لا يفعل كذا في المحيط."
(ص:٣٦٢،ج:٥،کتاب الكراهية،الباب الثاني والعشرون،ط:دار الفكر،بيروت)
المحيط البرهاني میں ہے:
"روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: سموا أولادكم أسماء الأنبياء وأحب الأسماء إلى الله تعالى؛ عبد الله، وعبد الرحمن قال الفقيه أبو الليث: لا أحب للعجم أن يسموا عبد الرحمن عبد الرحيم؛ لأن العجم لا يعرفون تفسيره، فيسمونه بالتصغير، وروي عن النبي عليه السلام: أنه نهى أن يسمى المملوك نافعا أو بركة، أو ما أشبه ذلك، قال الراوي:؛ لأنه لم يحب أن يقال: ليس ههنا بركة، ليس ههنا نافع إذا طلبه إنسان، وفي الأثر: لا يقول الرجل عبدي وأمتي، بل يقول: فتاي وفتاتي."
(ص:٣٨٢،ج:٥،کتاب الإستحسان والكراهية ،الفصل الرابع والعشرون،ط:دار الكتب العلمية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144507101003
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن