بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سگی ماں کو شہوت سے چھونے سے حرمت کا حکم


سوال

اگر کوئی بیٹا اپنی سگی ماں کو شہوت کے ساتھ مس کرے تو کیا اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہو جائے گی، اس کی والدہ اس کے والد کے لیے حرام ہو جائے گی؟

جواب

واضح رہے کہ جس طرح کسی عورت سے وطی کی وجہ سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہوتی ہے، اسی طرح عورت کو چھونے سے بھی حرمتِ مصاہرت ثابت ہوتی ہے، لیکن چھونے سے   حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے لیے چند شرائط  کا پایا جانا ضروری ہے، لہذا  اگر کسی آدمی نے اپنی ماں کو شہوت کے ساتھ چھولیا اور مذکورہ شرائط پائی گئیں تو حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجائے گی، یعنی ماں باپ کا رشتہ ختم ہوکر ماں باپ پر حرام ہوجائے گی،  شرائط مندرجہ ذیل ہیں:

1: مس بغیر حائل کے ہو یعنی درمیان میں کوئی کپڑا وغیرہ نہ ہو، یا  درمیان میں حائل اس قدر باریک ہو   کہ اس سے جسم کی حرارت پہنچتی ہو۔

2:  وہ بال جو سر سے نیچے لٹکے ہوئے ہوئے ہیں ان کو چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، بلکہ صرف ان بالوں کو چھونے سے حرمت ثابت ہوگی جو سر سے ملے ہوئے ہیں ۔

3: چھوتے وقت جانبین میں یا کسی ایک میں شہوت  پیدا ہو، مرد کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ   اس کے آلہ تناسل میں انتشار پیدا ہوجائے، اور اگر آلہ تناسل پہلے سے منتشر ہو تو اس میں اضافہ ہوجائے، اور  بیمار  اور بوڑھے  مرد جن کو انتشار نہیں ہوتا اور عورتوں کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ  دل  میں  ہیجان  کی کیفیت پیدا ہو اور دل کو لذت حاصل ہو،اور دل کا ہیجان پہلے سے ہوتو اس میں اضافہ ہوجائے۔

4: شہوت چھونے کے ساتھ ملی ہوئی ہو،  اگر چھوتے وقت شہوت پیدا نہ ہو، اور پھر بعد میں شہوت پیدا ہوتو اس کا اعتبار نہیں ہے، اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

5: شہوت تھمنے سے پہلے انزال نہ ہوگیا ہو، اگر انزال ہوگیا تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

6: عورت کی عمر کم از کم نو سال اور مرد کی عمر کم ازکم بارہ سال ہو۔

7: اگر چھونے والی عورت ہے اور وہ شہوت کا دعوی کرے  یا چھونے والا مرد ہے اور وہ شہوت کا دعوی کرےتو شوہر کو  اس خبر کے سچے ہونے کا غالب گمان ہو، اس لیے اس دعوی سے شوہر کا حق باطل  ہوتاہے، اس لیے  صرف دعوی کافی نہیں،   بلکہ شوہر کو ظنِ غالب  حاصل ہونا  یا  شرعی گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

وكما تثبت هذه الحرمة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل والنظر إلى الفرج بشهوة، كذا في الذخيرة.ثم المس إنما يوجب حرمة المصاهرة إذا لم يكن بينهما ثوب، أما إذا كان بينهما ثوب فإن كان صفيقا لا يجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة. ولو مس شعرها بشهوة إن مس ما اتصل برأسها تثبت وإن مس ما استرسل لا يثبت.والشهوة تعتبر عند المس والنظر حتى لو وجدا بغير شهوة ثم اشتهى بعد الترك لا تتعلق به الحرمة. وحد الشهوة في الرجل أن تنتشر آلته أو تزداد انتشارا إن كانت منتشرة، كذا في التبيين. وهو الصحيح، كذا في جواهر الأخلاطي. وبه يفتى، ... هذا الحد إذا كان شابا قادرا على الجماع فإن كان شيخا أو عنينا فحد الشهوة أن يتحرك قلبه بالاشتهاء إن لم يكن متحركا قبل ذلك ويزداد الاشتهاء إن كان متحركا، كذا في المحيط.وحد الشهوة في النساء والمجبوب هو الاشتهاء بالقلب والتلذذ به إن لم يكن وإن كان فازدياده، كذا في شرح النقاية للشيخ أبي المكارم. ووجود الشهوة من أحدهما يكفي وشرطه أن لا ينزل حتى لو أنزل عند المس أو النظر لم تثبت به حرمة المصاهرة. ويشترط أن تكون المرأة مشتهاة، كذا في التبيين. والفتوى على أن بنت تسع محل الشهوة لا ما دونها.

(الباب الثالث، ج:1، ص:374/375، ط:مكتبه رشيديه)

 

فتاوی شامی میں ہے:

وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها، ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه.

(فصل فى المحرمات، ج:3، ص:33، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144201200993

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں