بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سگی بہن اور سوتیلی بیوہ بہن میں کون زکات کا زیادہ حق دار ہے؟


سوال

ایک آدمی  کی دوبیویاں تھیں،  ایک کا انتقال ہو گیا ہے، اس فوت شدہ بیوی  کی ایک بیٹی ہے جو شادی شدہ ہے اور جو بیوہ حیات ہے، ان کی بھی کچھ اولاد ہیں ،سوال یہ ہے کہ مرحوم   کا ایک بیٹا ہے جو  صاحبِ نصاب ہے اور وہ ہر سال اپنی مقررہ زکات نکالتا ہے ،وہ اپنی سگی شادی شدہ بہن کو زکات دینے کا ارادہ رکھتا ہے اور دوسری سوتیلی بہن جوبیوہ بھی  ہے  وہ بھی زکوۃ  کا مطالبہ کر ہی ہے ۔تو ان دونوں بہنوں میں سے کو ن سی بہن زیاد مستحق ہے زکات لینے کے لیے؟ اور کس کو ترجیح دی جائے؟ یا دو نوں  زکات لینے میں برابر ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ان دونو ں بہنوں میں سے جو مستحق زکوۃ ہو اسے زکوۃ دینا درست ہے ، اگر ان میں سے کوئی غیر مستحق ہے تو اسے زکوۃ دینا درست نہیں ،اگر دونوں ہی مستحق زکوۃ ہوں تو بہترہے کہ دونوں ہی کو کچھ نہ کچھ  دی جائے ،تاہم ترجیح بیوہ  بہن کو حاصل ہے۔

ذخیر ۃ العقبی شرح المجتبی میں ہے:

"أي هذا باب ذكر الحديث الدال على فضل الساعي في مصلحة المرأة الفقيرة التي مات زوجها. ولفظ "الكبرى": "فضل الساعي على الأرملة والمسكين"، وهو الموافق للفظ الحديث.

قال الجامع - عفا الله تعالى عنه -: مناسبة إيراد هذا الباب هنا كون الأرملة من جملة ‌مصارف ‌الزكاة، فأراد أن يبين أنها وإن كانت من جملة المصارف، إلا أن لها فضلا، حيث إن من سعى في إيصال الخير إليها كان كالمجاهد في سبيل الله تعالى، فيكون فضل دفع الزكاة إليها أكثر من الدفع إلى غيرها من أمثالها من الفقراء."

‌‌ (باب من يسأل ولا يعطي،فضل الساعي على الأرملة،١١٥/٢٣،ط،دار المعراج الدولية للنشر)

الدر المختار میں ہے:

"و) ‌كره (‌نقلها ‌إلا ‌إلى ‌قرابة) بل في الظهيرية: لا تقبل صدقة الرجل وقرابته محاويج حتى يبدأ بهم فيسد حاجتهم (أو أحوج) أو أصلح أو أورع أو أنفع للمسلمين."

(کتاب الزکاة،باب المصرف ،٣/٣٥٦،ط ،مكتبة رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے :

"وفى القهستاني:والأفضل إخوته و أخواته ثم أولدهم ثم أعمامه وعماته ثم أخواله وخالاته ثم ذووا أرحامه ثم جيرانه ثم أهل سكته ثم بلده كما فى النظم."

(كتاب الزكاة ،باب المصرف ،٣٥٦/٣،ط:مكتبة رشيدية)

البنایۃ شرح الھدایۃ میں ہے:

"وفي " الأسبيجابي " وأما الأخوة والأخوات والأعمام والعمات والأخوال والخالات وأولادهم فلا بأس بدفع الزكاة إليهم، وذكر الزندويسني أن الأفضل في ‌مصرف ‌الزكاة المال إلى هؤلاء السبعة، أخوته وأخواته الفقراء، ثم أولادهم ثم أعمامه وعماته الفقراء، ثم أخواله وخالاته الفقراء، ثم ذوو أرحامهم ثم جيرانه ثم أهل سكنه ثم أهل مصره."

(باب من يجوز دفع الصدقات إليه ومن لا يجوز،‌‌دفع الزكاة للآباء والأبناء والزوجة،:٤٦٨/٣،ط:دار الكتب العلمية )

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144408101991

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں