بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سگی بہن کے ساتھ زنا کرنے سے والدین کے نکاح کا حکم


سوال

سگی بہن سے اگر زنا ہوجائے تو کیا ماں باپ کا نکاح ٹوٹ  جائے گا؟

جواب

واضح رہے کہ  زنا کرنا   بہت بڑا گناہ ہے،اوراپنے محارم سے زنا کرنا اور بھی قبیح ہے قرآن و حدیث میں زنا کی سخت مذمت بیان کی گئی ہے اور زنا کرنے والوں کے بارے میں سخت وعیدیں نازل ہوئی ہیں:

حدیثِ مبارک میں ہے:’’ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں شادی شدہ زنا کار پر لعنت کرتی ہیں اور جہنم میں ایسے لوگوں کی شرم گاہوں سے ایسی سخت بدبو پھیلے گی جس سے اہلِ جہنم بھی پریشان ہوں گے اور آگ کے عذاب کے ساتھ ان کی رسوائی جہنم میں ہوتی رہے گی۔‘‘(مسند بزار)

ایک دوسری حدیث میں ہے:’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: زنا کرنے والا زنا کرنے کے وقت مؤمن نہیں رہتا، چوری کرنے والا چوری کرنے کے وقت مؤمن نہیں رہتا، اور شراب پینے والا شراب پینے کے وقت مؤمن نہیں رہتا۔‘‘(صحیح بخاری)

ایک اور حدیث میں ہے:’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ و سلم مجھے زنا کرنے کی اجازت دے  دیجیے!   لوگ اس کی طرف متوجہ ہو کر اُسے ڈانٹنے لگے اور اسے پیچھے ہٹانے لگے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے فرمایا: میرے قریب آجاؤ!  وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب جا کر بیٹھ گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے پوچھا:  کیا تم اپنی والدہ کے حق میں بدکاری کو پسند کروگے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں!  نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  لوگ بھی اسے اپنی ماں کے لیے پسند نہیں کرتے۔  پھر دریافت فرمایا: کیا تم اپنی بیٹی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں!  نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند نہیں کرتے۔ پھر پوچھا: کیا تم اپنی بہن کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا:  اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں!  نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی بہن کے لیے پسند نہیں کرتے۔  پھر پوچھا: کیا تم اپنی پھوپھی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں!  نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی پھوپھی کے لیے پسند نہیں کرتے۔  پھر پوچھا: کیا تم اپنی خالہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں!  نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی خالہ کے لیے پسند نہیں کرتے۔  پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا دستِ مبارک اس کے جسم پر رکھا اور دعا کی کہ:  ”اے اللہ! اس کے گناہ معاف فرما، اس کے دل کو پاک فرما اور اس کی شرم گاہ کی حفاظت فرما!“ ، راوی کہتے ہیں: اس کے بعد اس نوجوان نے کبھی کسی کی طرف توجہ بھی نہیں کی۔‘‘(مسند احمد)

 بہن کے ساتھ زنا  کرنا عام  زنا سے زیادہ بدتر  اور قبیح ہے، بھائی تو بہنوں کی عزت کے محافظ ہوتے ہیں ، اس لیے اس عمل پر سچے دل سے اللہ تعالی سے توبہ کریں  اور آئندہ اس سے مکمل اجتناب کرے،  اگر بہن کے سامنے آنے سے گناہ کا داعیہ پیدا  ہوتا ہو تو تنہائی میں بہن کے ساتھ نہ  بیٹھے،تاہم بہن کے ساتھ زنا کر نےسے  والدین کے  نکاح پر اثر نہیں پڑا۔

قرآن کریم ہے:

"الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ."

[النور: 2] 

مسند البزار  میں ہے:

’’عن عبد الله بن بريدة عن أبيه رضي الله عنه : إن السماوات السبع و الأرضين السبع و الجبال ليلعن الشيخ الزاني و إن فروج الزناه لتؤذي أهل النار بنتن ريحها.‘‘

(ج:10، ص:310، ط: مكتبة العلوم والحكم )

صحيح البخاری میں ہے:

’’عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه و سلم: «لا يزني الزاني حين يزني و هو مؤمن، و لا يشرب الخمر حين يشرب و هو مؤمن، و لا يسرق حين يسرق و هو مؤمن، و لا ينتهب نهبة، يرفع الناس إليه فيها أبصارهم حين ينتهبها و هو مؤمن».‘‘

(ج:3، ص:136، ط: دار طوق النجاة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وحرم أيضا بالصهرية أصل مزنيته) قال في البحر: أراد بحرمة المصاهرة الحرمات الأربع حرمة المرأة على أصول الزاني وفروعه نسبا ورضاعا وحرمة أصولها وفروعها على الزاني نسبا ورضاعا كما في الوطء الحلال ويحل لأصول الزاني وفروعه أصول المزني بها وفروعها."

(كتاب النكاح، ج:3، ص:32، ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(قوله: قرابة).....(قوله: مصاهرة) كفروع نسائه المدخول بهن، وإن نزلن، وأمهات الزوجات وجداتهن بعقد صحيح، وإن علون، وإن لم يدخل بالزوجات وتحرم موطوءات آبائه وأجداده، وإن علوا ولو بزنى والمعقودات لهم عليهن بعقد صحيح، وموطوءات أبنائه وآباء أولاده، وإن سفلوا ولو بزنى والمعقودات لهم عليهن بعقد صحيح فتح، وكذا المقبلات أو الملموسات بشهوة لأصوله أو فروعه أو من قبل أو لمس أصولهن أو فروعهن، (قوله: رضاع)،....وهذه الثلاثة محرمة على التأبيد".

(فصل فی المحرمات،ج:3،ص:28،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144503100708

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں