بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سفر میں جاتے وقت بیویوں کی باری کے احکام


سوال

 اگر شوهـر اكثر اوقات سفر کرنا پسند كرے تو اپنی تین بیویوں میں سے کسی ایک کے  ساتھ سفر میں سہولت کی وجہ سے بغير قرعہ اندازى كرے لے جائے یہ جائز ہےیا نہیں؟ اور وہ شو ہر اپنی بیوی کے ساتھ سفر میں دو مہینے رہتا   ہےتو کیا باقی دونوں بیویوں کو بھی دو دو  مہینے باری دینا ضروری ہے؟  مجھے تفصيل سے اس مسئلے کا جواب دیں؛ تاکہ اس فتنے کو ختم كیا جا سکے؛ کیوں کہ  میرے علم میں ہے کہ شوہر کو اختىار ہے  کہ وہ سفر میں جس  کو مرضى ہو لے کر جائے اور وہ مدت باری میں شمار نہیں  کی جائے گی۔

جواب

 واضح رہے جس شخص کی ایک سے زائد بیویاں ہوں،  اس شخص کو سفر پر جاتے ہوئے اختیار ہے  کہ وہ اپنی صواب دید  پر کسی ایک کے ساتھ سفر کر لے،  البتہ بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرنا زیادہ بہتر ہے؛ تا کہ کسی ایک کی دل آزاری نہ ہو؛ لہذا صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ شخص کے لیے بغیر قرعہ اندازی کے تین بیویوں میں سے کسی ایک کے ساتھ سفر کرنے کی اجازت ہے،  البتہ بہتر یہ ہے کہ قرعہ اندازی کے ذریعہ تینوں میں سے کسی ایک  کی تعیین کی جائے  اور اسی طرح مذکورہ شخص کو یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اگر کثرتِ  سفر کی وجہ سے بیویوں کے حق زوجیت کی ادائیگی میں کوتاہی ہوتی ہو جس کی وجہ بیویوں کو پریشانی ہو تو   مذکورہ شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسفار کے  ساتھ  ساتھ اس بات کا بھی خیال کرے اور  اس کی ممکنہ صورت یہ بھی ہے کہ باری باری سب کو سفر پر اپنے ساتھ  لے  جائے۔

الفتاوى الهندية میں ہے:

«وله أن يسافر ببعض نسائه دون البعض والأولى أن يقرع بينهن تطييبا لقلوبهن وإذا قدم من السفر ليس للأخرى أن تطلب من الزوج أن يسكن عندها مثل ما كان عند التي سافر بها»

(کتاب النکاح باب القسم ج نمبر ۱ ص نمبر ۳۴۱،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201651

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں