ایک شخص اپنے گاؤں سے کسی دوسری جگہ جاتا ہے، جو تقریبا 30 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، گاؤں کی حدود سے باہر گاؤں کی چراگاہ ہے، پھر اس کے بعد دوسرے گاؤں کی آبادی شروع ہوتی ہے، وہاں ملازمت کرتا ہے اور ہر ہفتے اپنے گاؤں آتا ہے، ملازمت کی جگہ کبھی بھی 15 دن قیام نہیں کیا، اب ملازمت کی جگہ سے سفر یعنی شرعی سفر پر جاتا ہے، سفر سے واپس اپنے شہر آتا ہے، وہ شہر گاؤں سے 16 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، یہ شخص شہر میں کون سی نماز پڑھے گا؟قصر یا اتمام، اور شہر سے ملازمت کی جگہ گیاتو وہاں کون سی نماز پڑھے گا؟
صورت مسئولہ میں یہ شخص سفر شرعی سے واپسی پرشہر میں قصر کرے گا، جب تک کہ یہ اپنے گاؤں کی حدود میں داخل نہ ہو جائے، نیز جب یہ سفر شرعی سے واپسی پر اپنے شہر آیااور وہاں سے ملازمت کی جگہ گیا تو وہاں بھی قصر کرے گا، کیونکہ یہ ابھی تک اپنے گاؤں میں داخل نہیں ہوااور ابھی تک مسافر ہے، البتہ اگر سفر شرعی سے واپس اپنے گاؤں آ گیا اور پھر وہاں سے ملازمت کی جگہ گیاتو اس صورت میں اتمام کرے گا، کیونکہ اس کے گاؤں اور ملازمت کی جگہ کے درمیان کا فاصلہ سفر شرعی کی مقدار سے کم ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولا بد للمسافر من قصد مسافة مقدرة بثلاثة أيام حتى يترخص برخصة المسافرين وإلا لا يترخص أبدا ولو طاف الدنيا جميعها بأن كان طالب آبق أو غريم أو نحو ذلك ويكفي في ذلك القصد غلبة الظن يعني إذا غلب على ظنه أنه يسافر قصر ولا يشترط فيه التيقن، كذا في التبيين ويعتبر أن يكون من أهل النية حتى أن صبيا ونصرانيا إذا خرجا إلى السفر وسارا يومين ثم بلغ الصبي وأسلم النصراني فالصبي يتم والمسلم يقصر، كذا في الزاهدي."
(کتاب الصلوۃ، ج:1، ص:139، ط:المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے:
"ولا يزال" المسافر الذي استحكم سفره بمضي ثلاثة أيام مسافراً "يقصر حتى يدخل مصره" يعني وطنه الأصلي "أو ينوي إقامته نصف شهر ببلد أو قرية" قدره ابن عباس وابن عمر رضي الله عنهم وإذا لم يستحكم سفره بأن أراد الرجوع لوطنه قبل مضي ثلاثة أيام يتم بمجرد الرجوع وإن لم يصل لوطنه لنقضه السفر؛ لأنه ترك بخلاف السفر لا يوجد بمجرد النية حتى يسير، لأنه فعل "وقصر إن نوى أقل منه" أي من نصف شهر "أو لم ينو" شيئاً "وبقي" على ذلك "سنين".
قوله: "في محل تصح إقامة فيه" شروط إتمام الصلاة ستة النية والمدة واستقلال الرأي واتحاد الموضع وصلاحيته وترك السير در قوله: "يقصر" جملة يقصر صفة مسافراً قوله: "يعني وطنه الأصلي" ومنتهى ذلك بالوصول إلى الربض، فإن الانتهاء كالابتداء والإطلاق دال على أن الدخول أعم من أن يكون للإقامة أولا، ولحاجة نسيها. "
(کتاب الصلوۃ، ج:1، ص:425، ط:دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603100685
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن