صف میں دائیں بائیں 6 فٹ فاصلے کی انتظامیہ کی طرف سے اگر سختی سے پابندی کروائی جا رہی ہو تو کیا اس طریقے سے صف بنا کر جماعت کے ساتھ نماز درست ہو گی یا نہیں ؟ اور کیا اس طرح جماعت میں شامل ہونا بہتر ہے یا اکیلے نماز پڑھنا؟
صورتِ مسئولہ میں صفوں کا اتصال سنتِ مؤکدہ ہے،(1) صفوں کے اتصال کا مطلب یہ ہے کہ مقتدی آپس میں مل مل کر کھڑے ہوں ، کندھے کو کندھے سے ملائیں ،ٹخنوں کی سیدھ میں ٹخنہ رکھیں ، صفوں کے درمیان خلا نہ چھوڑیں اور دوصفوں کے درمیان اتنا فاصلہ نہ چھوڑیں کہ ایک صف مزید بن سکے، اس کے خلاف کرنا مکروہِ تحریمی ہے،(2) احادیثِ مبارکہ میں صفوں کے اتصال کی بڑی تاکید آئی ہے، صفوں کے اتصال کو فرشتوں کا طریقہ اور اس کی خلاف ورزی کو آپس کے اختلافات اور رنجشوں کا سبب قرار دیا ہے۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : رسول اللہ ﷺ ہماری صفیں (اس طرح) برابر (سیدھی) کیا کرتے تھے کہ گویا تیر بھی ان صفوں سے سیدھا کیا جا سکتا تھا، یہاں تک کہ ہم بھی آپ ﷺ سے (صفوں کی برابر کرنے کی اہمیت) سمجھ گئے۔ ایک دن رسول اللہ ﷺ (مکان سے نکل کر) تشریف لائے اور (نماز کے لیے ) کھڑے ہوگئے اور تکبیر (تحریمہ ) کہنے ہی کو تھے کہ ایک آدمی کا سینہ صف سے کچھ نکلا ہوا ہے آپ ﷺ نے دیکھ لیا، چنانچہ (یہ دیکھ کر ) آپ ﷺ نے فرمایا کہ: " اے اللہ کے بندو! اپنی صفیں سیدھی کر و، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان اختلاف ڈال دے گا۔ (3)
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ :رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : تم اپنی صفوں کو برابر رکھا کرو، کیوں کہ صفوں کو برابر رکھنا نماز کی تکمیل میں سےہے۔ (4)
حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :(ایک روز) رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان تشریف لائے اور ہمیں مختلف حلقوں میں بیٹھا دیکھ کر فرمایا کہ : کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں الگ الگ جماعتوں کی صورت میں (بیٹھے ہوئے) دیکھ رہا ہوں ؟ (یعنی اس طرح الگ الگ جماعت کر کے نہ بیٹھا کرو، کیوں کہ یہ نا اتفاقی اور انتشار کی علامت ہے)، پھر اسی طرح (ایک روز) رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان تشریف لائے اور فرمایا کہ تم لوگ (نماز میں) اس طرح صف کیوں نہیں باندھتے جس طرح فرشتے اللہ کے حضور (بندگی کے لیےکھڑے ہونے کے واسطے) صف باندھتے ہیں۔ہم نے عرض کیا کہ : " یا رسول اللہ ﷺ ! فرشتے اپنے پروردگار کے حضور کس طرح صف باندھتے ہیں ؟ فرمایا : پہلی صفوں کو پوری کرتے ہیں اور صف میں بالکل (برابر، برابر) کھڑے ہوتے ہیں۔(5)
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ :رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اپنی صفیں ملی ہوئی رکھو (یعنی آپس میں خوب مل کر کھڑے ہو) اور صفوں کے درمیان قرب رکھو (یعنی دو صفوں کے درمیان اس قدر فاصلہ نہ ہو کہ ایک صف اور کھڑی ہو سکے ) ، نیز اپنی گردنیں برابر رکھو (یعنی صف میں تم میں سے کوئی بلند جگہ پر کھڑا نہ ہو، بلکہ ہموار جگہ پر کھڑے ہو تاکہ سب کی گردنیں برابر رہیں ) قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! میں شیطان کو بکری کے کالے بچے کی طرح تمہاری صفوں کی کشادگی میں گھستے دیکھتا ہوں۔ (6)
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: اپنی صفوں کو برابر اور اپنے کندھوں کو ہموار رکھو (یعنی ایک سطح اور ہموار جگہ پر کھڑے ہو اور اونچا نیچا ہو کر مت کھڑے ہو) اور اپنے بھائیوں کے ہاتھ کے آگے نرم رہو (یعنی اگر کوئی آدمی کندھے پر ہاتھ رکھ کر تمہیں صف میں برابر کرے تو اس سے انکار نہ کرو)، بلکہ برابر ہو جاؤ، نیز صفوں میں خلا پیدا نہ کرو ،کیوں کہ شیطان خذف یعنی بھیڑ کا چھوٹا بچہ بن کر تمہارے درمیان گھس جاتا ہے۔ (7)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : صفوں کو سید ھی کرو، اپنے کندھوں کے درمیان ہمواری رکھو، صفوں کے خلاء کو پر کرو، اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم رہو (یعنی اگر کوئی آدمی تمہیں ہاتھوں سے پکڑ کر صف میں برابر کرے تو اس کا کہنا مانو) اور صفوں میں شیطان کے لیے خلا نہ چھوڑو اور (فرمایا) جس آدمی نے صف کو ملایا ( یعنی صف میں خالی جگہ پر جا کھڑا ہو گیا) تو اللہ تعالیٰ اسے (اپنے فضل اور اپنی رحمت سے) ملا دے گا اور (یاد رکھو) جو شخص صف کو توڑے گا تو اللہ تعالیٰ اسے توڑ ڈالے گا (یعنی مقام ِقرب سے دور پھینک دے گا)۔ (8)
لہذاصفوں کے درمیان ایک صف سے زائد کا فاصلہ رکھنایا مقتدیوں کا ایک دوسرے سے دائیں بائیں فاصلے سے کھڑا ہونا سنت مؤکدہ کے خلاف اور مکروہِ تحریمی ہے۔
وبائی امراض یا وائرس کے خدشے کی وجہ سے دائیں بائیں فاصلے کے ساتھ کھڑا ہونا مکروہِ تحریمی ہے، یہ عمل نبی کریم ﷺ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین کے عمل کے خلاف ہے۔
پھر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ وبا / طاعون کے خوف سے بھاگنا اور دینی احکام میں تبدیلی واقع کرنا شریعتِ مطہرہ کی روح کے خلاف ہے، شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ : شام میں طاعون واقع ہوا تو حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ : اس سے دور ہو جاؤ ، کیوں کہ یہ گندگی ہے، یہ بات حضرت شرحبیل تک پہنچی، انہوں نے فرمایا کہ: میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ رہا ہوں، میں نے انہیں یہ کہتے سنا ہے کہ : یہ طاعون اللہ تعالی کی رحمت ، تمہارے نبی کی دعا اور تم سے پہلے گزرے ہوئے مؤمنین کی موت ہے، لہذا اکٹھے رہو، بھاگو مت تو حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ : انہوں نے سچ کہا۔(9)
لہذا وبا / طاعون وغیرہ کا پھیلنا اللہ تعالی کی جانب سے مؤمنین کے لیے آزمائش ہے، اس آزمائش کی گھڑی میں مؤمنین کا رجوع اللہ تعالی کے احکام اور نبی کریم ﷺ کی سنتوں کی جانب سے مزید بڑھ جانا چاہیے، لہذا اگر مساجد آباد کی جائیں اور شرعی احکام میں سنتوں کی پابندی کی جائے تو ان شاء اللہ اس وبا سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کرلیا جائے گا۔ (10)
اگر انتظامیہ صفوں کے اتصال کے ساتھ نماز پڑھنےکی اجازت نہ دے تو اس کا گناہ اس کے سر ہوگا، تاہم لوگ جماعت ترک نہ کریں۔
حوالہ جات:
(1) فتح القدير لكمال بن الهمام (2 / 206):
"ولنسق نبذة من سنن الصف تكميلا ، من سننه التراص فيه والمقاربة بين الصف والصف والاستواء فيه".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (1 / 570):
"(قوله: كما بسط في البحر) أي نقلا عن فتح القدير حيث قال: ويظن أن فسحه له رياء بسبب أن يتحرك لأجله، بل ذاك إعانة على إدراك الفضيلة وإقامة لسد الفرجات المأمور بها في الصف، والأحاديث في هذا شهيرة كثيرة".
(2) مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (3 / 853):
"(سووا صفوفكم) : بعدم تخلية الفرجة".
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (3 / 854):
"(وسدوا الخلل) أي: من الصفوف، أو مما بينهن".
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (3 / 851):
"(وقاربوا بينها) أي: بين الصفوف بحيث لايقع بين صفين صف آخر، فيصير تقارب أشباحكم سببا لتعاضد أرواحكم، ولا يقدر الشيطان أن يمر بين أيديكم، والظاهر أن محله حيث لا عذر كحر أو برد شديد".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (1 / 570):
"ولو صلى على رفوف المسجد إن وجد في صحنه مكانًا كره كقيامة في صف خلف صف فيه فرجة. قلت: وبالكراهة أيضا صرح الشافعية. قال السيوطي في [بسط الكف في إتمام الصف] : وهذا الفعل مفوت لفضيلة الجماعة الذي هو التضعيف لا لأصل بركة الجماعة، فتضعيفها غير بركتها، وبركتها هي عود بركة الكامل منهم على الناقص. اهـ.
ولو وجد فرجة في الأول لا الثاني له خرق الثاني لتقصيرهم، وفي الحديث «من سد فرجة غفر له» وصح «خياركم ألينكم مناكب في الصلاة» وبهذا يعلم جهل من يستمسك عند دخول داخل بجنبه في الصف ويظن أنه رياء، كما بسط في البحر".
و في الرد:
"(قوله: كقيامه في صف إلخ) هل الكراهة فيه تنزيهية أو تحريمية، ويرشد إلى الثاني قوله صلى الله عليه وسلم "ومن قطعه قطعه الله " ط.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (1 / 569):
"وعليه فلو وقف في الصف الثاني داخلها قبل استكمال الصف الأول من خارجها يكون مكروهًا".
(3) عن النعمان بن بشير رضي الله عنهما، قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسوي صفوفنا حتى كأنما يسوي بها القداح، حتى رأى أنا قد عقلنا عنه، ثم خرج يومًا فقام حتى كاد أن يكبر، فرأى رجلًا باديًا صدره من الصف، فقال: عباد الله! لتسون صفوفكم، أو ليخالفن الله بين وجوهكم» رواه مسلم".
(4) و عن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «سووا صفوفكم، فإن تسوية الصفوف من إقامة الصلاة» متفق عليه".
(5) وعن جابر بن سمرة رضي الله عنه قال: «خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فرآنا حلقًا، فقال: "ما لي أراكم عزين؟ ! ". ثم خرج علينا فقال: " ألا تصفون كما تصف الملائكة عند ربها؟ " فقلنا: يا رسول الله! وكيف تصف الملائكة عند ربها؟ قال: " يتمون الصفوف الأولى، ويتراصون في الصف»". رواه مسلم".
(6) عن أنس رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «رصوا صفوفكم، وقاربوا بينها، وحاذوا بالأعناق ; فوالذي نفسي بيده، إني لأرى الشيطان يدخل من خلل الصف كأنها الحذف» ". رواه أبو داود".
(7) عن أبي أمامة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" سووا صفوفكم، وحاذوا بين مناكبكم، ولينوا في أيدي إخوانكم، وسدوا الخلل، فإن الشيطان يدخل فيما بينكم بمنزلة الْحَذَفِ» " يعني أولاد الضأن الصغار. رواه أحمد".
(8) و عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «أقيموا الصفوف، وحاذوا بين المناكب، وسدوا الخلل، ولينوا بأيدي إخوانكم، ولاتذروا فرجات الشيطان، ومن وصل صفًّا وصله الله، ومن قطعه قطعه الله» ". رواه أبو داود وروى النسائي (9) شرح معاني الآثار (4 / 306)
حدثنا ابن أبي داود، قال: ثنا أبو الوليد، قال: حدثنا شعبة، عن يزيد بن حميد، قال: سمعت شرحبيل بن حسنة، يحدث عن عمرو بن العاص: إن الطاعون وقع بالشام فقال عمرو: "تفرقوا عنه فإنه رجز" . فبلغ ذلك شرحبيل ابن حسنة فقال: قد صحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم . فسمعته يقول: "إنها رحمة ربكم، ودعوة نبيكم وموت الصالحين قبلكم، فاجتمعوا له، ولاتفرقوا عليه"، فقال عمرو رضي الله عنه: صدق".
(10) بذل الماعون في فضل الطاعون لابن حجر العسقلاني (1 / 339):
"و أما المبادرة إلى رد المظالم و التبعات، و التوبة من الذنوب و المخالفات، و الاستغفار من الدخول فيما لايعنيه، فلا شك في استحبابه، بل وجوبه على الحالين، بل هو مشروع في كل حال إلا أنه يتأكد في حق المريض و لو كان مرضه غير مخوف، و عند وقوع الموت العام آكد، للخلاف في كونه مخوفًا، و يزداد تأكده في المخوف، و هو في حق من نزل به الطاعون، و الله أعلم.
مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ دیکھیے:
وبائی امراض کی وجہ سے صفوں میں فاصلہ کرنا
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109200061
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن