بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صفی اللہ / نجی اللہ/ طٰہٰ/ معاذ / سدیس/ محمد ہاد/ محمد مہد نام رکھنے کا حکم


سوال

محمد صفی اللہ ، نجی اللہ، معاذ ، طہ ، سدیس ان ناموں کے مطلب بتا دیں اور ان سب کے ساتھ محمد لگا سکتے ہیں؟ نیز محمد ہادی اور محمد مہد نام رکھ سکتے ہیں؟  راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

1: صَفِیُّ کا معنی ہے: منتخب،چناہوا (القاموس الوحید، المادۃ:ص/ ف/ ی، ص:931، ط:ادارۃ الاسلامیات)

صفی اللہ کا معنیٰ ہے: اللہ تعالیٰ کا چنا ہوا، معنی کے اعتبار سے بچے کانام محمد صفی اللہ  رکھنا درست ہے۔

2: نَجِیُّ کا معنیٰ ہے: سرگوشی کرنے والا (القاموس الوحید، المادۃ:ن/ ج/ ی، ص:1617، ط:ادارۃ الاسلامیات)

لہذا  نجی اللہ کا معنیٰ ہے: اللہ تعالیٰ سے سرگوشی کرنے والا، معنی کے اعتبار سے بچے کا نام محمد نجی اللہ  رکھنا درست ہے۔

3: مُعَاذ نام کا معنیٰ ہے: پناہ میں رہنے والا شخص(القاموس الوحید، المادۃ:ع/ و/ ذ، ص:1140، ط:ادارۃ الاسلامیات)

یہ مشہور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہے، یہ نام رکھنا باعثِ برکت اور افضل ہے۔

4: سُدَيْس" کا معنیٰ ہے: کسی چیز کا چھٹا حصہ،  نیز   سُدَيْس ایک صحابی کا نام بھی ہے، لہذا بچے کا نام سدیس رکھنا جائز ہے۔

5: لفظ طٰہٰ  قرآن کریم کے حروف مقطعات میں سے ہے،بعض روایات کے مطابق یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے اسماء گرامی میں سے ہے۔ اور لفظ "محمد" نام کے ساتھ لگانا باعث برکت ہے۔لہذا"محمد طہ" نام رکھنا درست ہے۔

نیز ان تمام ناموں کے ساتھ محمد لگاکر یعنی محمد صفی اللہ/ محمد نجی اللہ/ محمد طٰہٰ/ محمد معاذ/ محمد سدیس نام رکھنا جائز ہے۔

6: ہاد کا معنیٰ ہے: راہ نمائی کرنے والا (القاموس الوحید، المادۃ:ہ/ د/ ی، ص:1752، ط:ادارۃ الاسلامیات)

مذکورہ معنیٰ کے اعتبار سے ہاد بندوں کی صفت ہے، اور بچے کا نام محمد ہاد رکھنا درست ہے۔

7: مَهْد  کے معنی  ہیں : بچہ کا گہوارہ  ( بچوں کا جھولا) ،  نرم وہم وار زمین (القاموس الوحید، المادّہ: مہد، ص:1588، ط:ادارۃ الاسلامیات)

مذکورہ معنیٰ کے اعتبار سےبچے کا نام محمد مہد رکھنا جائز ہے۔

تفسیر مظہری میں ہے:

"(طه) قرأ أبو بكر- حمزة والكسائي بامالة فتح الطاء والهاء ...  اخرج ابن مردوية في تفسيره عن على رضى الله عنه واخرج البزار عنه انه قال لما نزل على النبي صلى الله عليه وسلم يايّها المزّمّل قم اللّيل الّا قليلا قام الليل كله حتى تورمت قدماه فجعل يرفع رجلا ويضع اخرى فهبط عليه جبرئيل فقال طه على الأرض بقدميك يا محمد كذا قرئ- فعلى هذا أصله طامن وطايطا فقلبت الهمزة هام وقلبت الهمزة في يطا الف ثم بنى عليه الأمر وضم إليه ها السكت ويحتمل ان يكون الف طا مبدلة من الهمزة والهاء ضمير راجع الى الأرض لكن يرد على هذا كتابتها على صورة الحروف وقال مجاهد وعطاء والضحاك معناه يا رجل- وقال قتادة هو يا رجل بالسريانية- وقال الكلبي هو يا انسان بلغة عك - فعلى هذا خطاب للنبى صلى الله عليه وسلم ولهذا اعدوا طه من اسماء النبي صلى الله عليه وسلم لكونه كناية عنه."

( ‌‌سورة طه، رقم الآیۃ:1، ج:6، ص:124،  ط: مكتبة الرشيدية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144410101498

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں