بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سفر میں اذان اور اقامت کا حکم


سوال

سفر میں اذان اور اقامت کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اذان سنتِ مؤکدہ ہے جو واجب کے قریب اور دین کے شعائر میں سے ہے، نیز اقامت کہنا جماعت کی نماز میں سنت  ہے، منفرد کے لیے اذان کا حکم یہ ہے کہ منفرد  کے لیے علاقہ کی اذان ہی کافی ہے دوبارہ اذان دینے کی ضرورت نہیں ہے  اگر چہ آخر وقت میں نما ز پڑھے ،اگر اذان نہ ہوئی ہو تو   افضل یہ ہے کہ اذان دے کر  نماز پڑھی جائے ،رہی بات اقامت کی تو اقامت کہنا باجماعت  پڑھنے والے مردوں کے لیے سنت مؤکدہ ہے ، منفرد  پر اقامت کہنے کا حکم نہیں ہے ، لہٰذا فرض نماز کی ادائیگی میں اذان اور اقامت(جماعت)میں جس طرح حضر میں سنت ِ موکدہ ہے اسی طرح سفر میں بھی سنتِ موکدہ ہے  ۔

مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح ميں هے:

"و" كذا "الإقامة سنة مؤكدة" في قوة الواجب؛ لقول النبي صلى الله عليه وسلم: "إذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم و ليؤمكم أكبركم"، وللمدوامة عليهما "للفرائض"، ومنها الجمعة؛ فلايؤذن لعيد واستسقاء وجنازة ووتر".

(کتاب الصلاة باب الأذان :ص:78،ط:المكتبة العصريه)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الأذان سنة لأداء المكتوبات بالجماعة، كذا في فتاوى قاضي خان وقيل: إنه واجب والصحيح أنه سنة مؤكدة، كذا في الكافي وعليه عامة المشايخ، هكذا في المحيط."

(کتاب الصلاۃ ،الباب الثاني، الفصل الأول،  1/ 53، ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكره تركهما) معًا (لمسافر) ولو منفردا (وكذا تركها) لا تركه»لحضور الرفقة (بخلاف مصل) ولو بجماعة (وفي بيته بمصر) أو قرية لها مسجد؛ فلا يكره تركهما إذ أذان الحي يكفيه. 

(قوله: إذ أذان الحي يكفيه) لأن أذان المحلة وإقامتها كأذانه وإقامته؛ لأن المؤذن نائب أهل المصر كلهم كما يشير إليه ابن مسعود حين صلى بعلقمة والأسود بغير أذان ولا إقامة، حيث قال: أذان الحي يكفينا، وممن رواه سبط ابن الجوزي فتح: أي فيكون قد صلى بهما حكما، بخلاف المسافر فإنه صلى بدونهما حقيقة وحكما؛ لأن المكان الذي هو فيه لم يؤذن فيه أصلا لتلك الصلاة كافي. وظاهره أنه يكفيه أذان الحي وإقامته وإن كانت صلاته فيه آخر الوقت تأمل، وقد علمت تصريح الكنز بندبه للمسافر وللمصلي في بيته في المصر، فالمقصود من كفاية أذان الحي نفي الكراهة المؤثمة. قال في البحر: ومفهومه أنه لو لم يؤذنوا في الحي يكره تركهما للمصلي في بيته، وبه صرح في المجتبى، وأنه لو أذن بعض المسافرين سقط عن الباقين كما لا يخفى."

(کتاب الصلاۃ باب الاذان ج:1،ص:394،ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144403102360

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں