بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سفر کی حالت میں روزے کا حکم


سوال

میرا 3 یا 4 رمضان المبارک کو امتحانی پرچہ ہے میڈیکل کے کسی شعبے کا، جس کے لیے مجھے حیدرآباد سے کراچی کی طرف سفر کرنا ہوگا، اس معاملے میں چند سوالات کے جوابات معلوم کرنے ہیں:

1۔ ہم حیدرآباد سے کراچی سفر کرتے ہیں تو وہاں مسافر ہوتے ہیں قصر نماز پڑھتے ہیں اور اس بار ایک مکمل دن کا قیام بھی ہے، اس صورت میں وہاں قیام والے دن روزہ رکھنا ہوگا یا نہ رکھنا مباح ہے جیسا کہ قرآن میں حکم ربی ہے اس کی وضاحت فرما دیجیے کہ افضل کیا ہے۔

2۔ تراویح کا کیا حکم ہے مسافر پر؟

3۔ میں الحمد للہ بیس رکعت تراویح کی مکمل ادائیگی کرتا ہوں لیکن اس بار امتحان کی پڑھائی  کا شدید بوجھ ہے، کیا میں امتحان ہونے تک ابتدا کے دو تین دن آٹھ رکعت تراویح پڑھ سکتا ہوں؟ مسافر اور مقیم دونوں صورتوں میں وضاحت فرمادیں !

جواب

1-   اگر  شرعی سفر میں کسی ایک جگہ پندرہ دن  تک قیام کا ارادہ نہیں ہے، تو ایسا شخص شرعاً مسافر ہے اور مسافر کو روزہ رکھنے یا نہ رکھنے دونوں کا اختیار ہے، اور نہ رکھنے کی صورت میں بعد میں اس روزہ کی قضا کرنا لازم ہوگی، تاہم  اگر سفر کے دوران روزہ رکھنے  میں  سہولت ہے، دشواری نہیں  ہے  تو روزہ رکھ لینا بہتر ہے، اگر روزہ رکھنے میں مشقت اور دشواری ہے تو  اس صورت میں روزہ نہ رکھنے کی بھی اجازت ہےاور بعد میں اس روزہ کی قضا کرلے۔

 2- سفر میں اگر موقع ہوتوتراویح پڑھ لینابہتر ہے ۔ اور اگر موقع نہ ہوتو تراویح کا چھوڑدینابھی جائز ہے۔ (کفایت المفتی، ج: 3، ص:  404،دارالاشاعت)

3- بیس رکعت تراویح ادا کرنا سنتِ مؤکدہ ہے، یہی صحابہ کرام، تابعین ، تبع تابعین کا معمول تھا، اس پر صحابہ  کرام اور امتِ محمدیہ کے فقہاء کا اجماع ہے،بیس رکعت سے کم تراویح نہیں ہے۔ البتہ   بیس سے کم جتنی رکعات تراویح ادا کی جائے  گی اتنی رکعات تو ادا ہوجائیں گی، لیکن مکمل تراویح ادا نہیں ہوگی،لہذا امتحان کے بوجھ  کی وجہ سے تراویح کی نماز بیس سے کم پڑھنے کے بجائے مختصر سورتوں کے  ساتھ مکمل  پڑھنا ہی بہتر ہے، اس کی برکت سے ان شاء اللہ امتحان میں بھی کامیاب ملے گی۔

فتاوی شامی میں ہے: 

"(التراويح سنة) مؤكدة؛ لمواظبة الخلفاء الراشدين (للرجال والنساء) إجماعاً.(قوله: التراويح) جمع ترويحة؛ سميت الأربع بها للاستراحة بعدها خزائن، وإنما أخرها عن النوافل لكثرة شعبها واختصاصها عنها بأدائها بجماعة وأحكام أخر، ولذا أفرد لها تأليفاً خاصاً بأحكامها الإمام حسام الدين، وتبعه العلامة قاسم.

(قوله: سنة مؤكدة) صححه في الهداية وغيرها، وهو المروي عن أبي حنيفة. وذكر في الاختيار أن أبا يوسف سأل أبا حنيفة عنها وما فعله عمر، فقال: التراويح سنة مؤكدة، ولم يتخرجه عمر من تلقاء نفسه، ولم يكن فيه مبتدعاً؛ ولم يأمر به إلا عن أصل لديه وعهد من رسول الله صلى الله عليه وسلم. ولاينافيه قول القدوري: إنها مستحبة كما فهمه في الهداية عنه، لأنه إنما قال: يستحب أن يجتمع الناس، وهو يدل على أن الاجتماع مستحب، وليس فيه دلالة على أن التراويح مستحبة، كذا في العناية. وفي شرح منية المصلي: وحكى غير واحد الإجماع على سنيتها، وتمامه في البحر.(قوله: لمواظبة الخلفاء الراشدين) أي أكثرهم؛ لأن المواظبة عليها وقعت في أثناء خلافة عمر - رضي الله عنه -، ووافقه على ذلك عامة الصحابة ومن بعدهم إلى يومنا هذا بلا نكير، وكيف لا، وقد ثبت عنه صلى الله عليه وسلم: «عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين، عضوا عليها بالنواجذ»، كما رواه أبو داود، بحر (قوله: إجماعاً) راجع إلى قول المتن: سنة للرجال والنساء، وأشار إلى أنه لا اعتداد بقول الروافض: إنها سنة الرجال فقط، على ما في الدرر والكافي. أو أنها ليست بسنة أصلاً كما هو المشهور عنهم على ما في حاشية نوح، لأنهم أهل بدعة يتبعون أهواءهم لايعولون على كتاب ولا سنة، وينكرون الأحاديث الصحيحة."

(کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، ج: 2، صفحہ: 43،ط: ایچ، ایم، سعید) 

وفیہ ایضاً: 

"(ويندب لمسافر الصوم) لآية - {وأن تصوموا} [البقرة: 184]- والخير بمعنى البر لا أفعل تفضيل (إن لم يضره) فإن شق عليه أو على رفيقه فالفطر أفضل لموافقته الجماعة."

(کتاب الصوم، فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم، ج: 2، صفحہ: 423، ط:  ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308102157

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں