بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سفیرِ مدرسہ کی اجرت طے کرنے کا اصول


سوال

کراچی کے مضافات میں ایک مدرسہ زیرِ تعمیر ہے، اس کے مہتمم کا کوئی ذریعۂ آمدن نہیں ہے، مہتمم کے بھائی نے اپنے جاننے والوں سے چندہ وصول کیا، جس سے تعمیرات جاری ہیں، اس میں سے بھائی نے اب تک کچھ نہیں لیا، البتہ اب بھائی کہتا ہے کہ میں مدرسہ کے لیے چندہ جمع کروں گا لیکن اس میں سے مجھے اجرت دو گے۔

کیا چندہ کیے ہوئے پیسوں میں سے اسے اجرت دی جاسکتی ہے، اگر دے سکتے ہیں فیصد کے اعتبار سے کتنے دے سکتے ہیں؟ نیز یہ شخص لوگوں کے پاس آتا جاتا ہےاور موبائل کے ذریعے بات بھی کرتا ہے۔

جواب

چندہ کیے ہوئے پیسوں میں سے اجرت دینے کے جواز کے لیے ضروری ہے کہ انھیں پیسوں میں سے اجرت دینے کی شرط نہ لگائی جائے، شرط لگائے بغیر ان پیسوں میں سے اجرت دے دی جائے  تو جائز ہے، باقی اجرت یوں طے کرنا کہ جمع شدہ پیسوں کا دس فیصد مثلاً اجرت میں دیا جائے گا یہ بھی جائز نہیں ہے، لہذا اگر یہ شخص پورا سال چندہ کرے تو اس کی ماہانہ تنخواہ مقرر کردی جائے یا اگر پورے سال چندہ نہ کرے تو جتنے عرصے چندہ کرے اس عرصے کی تنخواہ مقرر کردی جائے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ومنها: أن تكون الأجرة معلومةً. ومنها: أن لاتكون الأجرة منفعةً هي من جنس المعقود عليه كإجارة السكنى بالسكنى والخدمة بالخدمة."

( کتاب الإجارة، الباب الأول: تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها،4/ 411، ط: رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو) (دفع غزلاً لآخر لينسجه له بنصفه) أي بنصف الغزل (أو استأجر بغلاً ليحمل طعامه ببعضه أو ثورًا ليطحن بره ببعض دقيقه) فسدت في الكل؛ لأنه استأجره بجزء من عمله، والأصل في ذلك نهيه صلى الله عليه وسلم عن قفيز الطحان."

( کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ،6/ 56ط: سعید)

 فقط والله اعلم  


فتوی نمبر : 144410101854

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں