میں مدرسے کا سفیر ہوں ،میری روزانہ کی اجرت 300روپے ہے ،خواہ چندہ ہو یا بالکل نہ ہو، اور 600 روپے سے زائد جو چندہ ہو، اس کے حساب سے الگ رقم (مثلاً آدھی یاتہائی)بمع اجرت متعینہ مجھےدی جائےگی،کیا یہ معاملہ جائز ہے؟
واضح رہےکہ سفیرکےلیےاجرت طےکرناجائزہے،البتہ فیصدکےاعتبارسےاجرت طےکرناکہ جتناچندہ ہوجائے،اس میں سےآدھاسفیرکااورآدھاادارہ کا،تویہ صورت جائزنہیں ہے؛لہذاصورتِ مسئولہ میں سائل کےلیےبحیثیت اجرت 300روپے-چاہےچندہ ہویانہ ہو- جائزہے،البتہ 600روپےسےزیادہ چندہ پر،اسی رقم میں سےآدھی یا تہائی رقم بطورِ اجرت طےکرناجائزنہیں ہے ۔
الدرالمختارمیں ہے:
"(ولو دفع غزلا لآخر لينسجه له بنصفه) أي بنصف الغزل (أو استأجر بغلا ليحمل طعامه ببعضه أو ثورا ليطحن بره ببعض دقيقه) فسدت في الكل لانه استأجره بجزء من عمله، والاصل في ذلك نهيه (ص) عن قفيز الطحان وقدمناه في بيع الوفاء. والحيلة أن يفرز الاجر أولا، أو يسمى قفيزا بلا تعيين ثم يعطيه قفيزا منه فيجوز."
(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ٥٦/٦،ط:سعيد)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"سوال:مدرسہ کی وصولی کرنےپرچوتھائی یاتہائی حصہ جومحصلین وعاملین کودیاجاتاہے،کیساہے؟کونسی صورت جائزہے؟۔۔۔
جواب:یہ طریقہ ناجائزہے،یہ اجارہ فاسدہے،دووجہ سےایک :بوجۂ جہالتِ اجر،اوردوسرا:اس لیےکہ اس میں اجرت عملِ اجیرسےحاصل ہونی ہے۔
جائزصورت یہ ہےکہ ان کی تنخواہ مقررکردی جائے،اوریہ کہاجاوےکہ اگرہزارروپےلاؤگے،توپچاس روپےعلاوہ تنخواہ کےمزیدانعام دیاجائےگا۔"
(باب اجرۃ الدلال والسمسار،ص:623،ج:16)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144503101804
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن