بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 ذو الحجة 1446ھ 12 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

سفر میں ظہر اور عصر کی نماز کو مثل اول میں ادا کرنا


سوال

 کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم نے لاہور سے ملتان کے سفر کا ارادہ کیا اور دوپہر تقریبا ساڑھے بارہ بجے جب کہ ظہر کا ٹائم شروع ہو گیا تو ہم نے ارادہ کیا کہ ہم موٹروے پر آبادی سے باہر نکلنے کے بعد جب عصر کا مثل اول وقت شروع ہو جائے گا اس وقت ہم رک کر پہلے ظہر کی نماز قصر پڑھیں گے ، پھر عصر کی نماز مثل اول میں پڑھ کر دوبارہ سفر شروع کر لیں گے، راہ نمائی فرما دیں  ، ظہر کا وقت سفر شروع ہونے سے پہلے شروع ہو چکا تھا تو ہمیں ظہر کی نماز گھر پڑھنی چاہیے تھی یا جیسے ہم نے سفر میں جا کے ظہر قصر پڑھ لی وہ ٹھیک ہے؟ سفر میں جا کے ظہر کو ذرا تاخیر سے مثل اول میں پڑھ لیا اس کے بعد عصر کی نماز پڑھ کے پھر سفر پر روانہ ہو گئے، اس طرح ٹھیک ہے یا ہمیں عصر کی نماز حنفی ٹائم میں ہی پڑھنی چاہیے تھی؟

جواب

فقہ حنفی کی رو سے مثلِ ثانی سے پہلے عصر کی نماز پڑھنا جائز نہیں ہے، نہ سفر میں اور نہ عام حالت میں، البتہ اگر مثلِ ثانی سے پہلے سفر میں نکلنا ہو اور  اس بات کا قوی اندیشہ ہو کہ منزل پر پہنچنے سے پہلے عصر کی نماز پڑھنے کا موقع نہیں ملے گا اور منزل پر پہنچتے پہنچتے عصر کا وقت نکل جائے گا اور درمیان میں عصر کا موقع کا نہیں ملے گا تو پھر صاحبین کے قول کے مطابق مثلِ اول ہونے کے بعد مثلِ ثانی سے پہلے عصر پڑھ کر سفر میں نکلنے کی گنجائش ہوگی۔

صورتِ مسئولہ میں ظہر   کی نماز وقت کے اندر ادا  کی ہے تو وہ ادا  ہوگئی ہے، البتہ عصر کی نماز آپ کو مثل ثانی میں ادا کرنی چاہیے تھی، لیکن آپ نے جو نماز ادا کی تو نماز ہوگئی ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(والمعتبر في تغيير الفرض آخر الوقت) وهو قدر ما يسع التحريمة (فإن كان) المكلف (في آخره مسافراً وجب ركعتان وإلا فأربع)؛ لأنه المعتبر في السببية عند عدم الأداء قبله.

 (قوله: والمعتبر في تغيير الفرض) أي من قصر إلى إتمام وبالعكس (قوله: وهو) أي آخر الوقت قدر ما يسع التحريمة كذا في الشرنبلالية والبحر والنهر، والذي في شرح المنية تفسيره بما لايبقى منه قدر ما يسع التحريمة وعند زفر بما لايسع فيه أداء الصلاة (قوله: وجب ركعتان) أي وإن كان في أوله مقيماً وقوله: وإلا فأربع أي وإن لم يكن في آخره مسافراً بأن كان مقيماً في آخره فالواجب أربع. قال في النهر: وعلى هذا قالوا: لو صلى الظهر أربعاً ثم سافر أي في الوقت فصلى العصر ركعتين ثم رجع إلى منزله لحاجة فتبين أنه صلاهما بلا وضوء صلى الظهر ركعتين والعصر أربعاً؛ لأنه كان مسافراً في آخر وقت الظهر ومقيماً في العصر (قوله: لأنه) أي آخر الوقت. (قوله: عند عدم الأداء قبله) أي قبل الآخر.

والحاصل أن السبب هو الجزء الذي يتصل به الأداء أو الجزء الأخير إن لم يؤد قبله وإن لم يؤد حتى خرج الوقت فالسبب هو كل الوقت. قال في البحر: وفائدة إضافته إلى الجزء الأخير اعتبار حال المكلف فيه، فلو بلغ صبي أو أسلم كافر أو أفاق مجنون، أو طهرت الحائض أو النفساء في آخره لزمتهم الصلاة ولو كان الصبي قد صلاها، في أوله وبعكسه لو جن أو حاضت أو نفست فيه لفقد الأهلية عند وجود السبب، وفائدة إضافته إلى الكل عند خلوه عن الأداء أنه لا يجوز قضاء عصر الأمس في وقت التغير وتمام تحقيقه في كتب الأصول".

(جلد۲، ص:۱۳۱، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100725

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں