بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

صفر کے مہینے کو منحوس سمجھنا/ سورہ مزمل پڑھوانا/ چھولے تقسیم کرنے کا حکم


سوال

صفرالمظفر کے مہینے کو منحوس سمجھنا یا یہ سمجھنا کہ اس مہینے میں آفات نازل ہوتی ہیں کیسا ہے؟اور اس مہینے میں سورۃ مزمل (365)دفعۃ پڑھوانا اور کالے یا سفید چھولے ابال کر بانٹنا کیسا ہے ؟

جواب

1:صفر کے مہینے کو منحوس سمجھنا یا یہ سمجھنا کہ اس مہینے میں مختلف آفات نازل ہوتے ہیں یہ سب زمانہ جاہلیت کا عقیدہ تھا اسلام میں کسی وقت کسی مہینے یا کسی مخلوق کے منحوس ہونے کا تصور بالکل جائز نہیں ہے یعنی کسی چیز کی نحوست کا تصور بالکل خلاف اسلام ہے اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے تصورات کو باطل کر دیا ہے اور فرما دیا کہ ایسے تصور کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اپنے اشارات کے ذریعہ ان سب توہمات اور باطل خیالات کی تردید فرمائی اور نحوست و بدشگونی کے سب طریقوں کی نفی فرمائی اس لیے مسلمانوں پر لازم ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو مضبوطی سے تھامیں اور ایسے غلط خیالات و توہمات سے اجتناب کریں۔

صفر  یا اس کے علاوہ کسی بھی مہینے میں  سورہ مزمل پڑھنا یا کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرناضروری نہیں ہے،  اگر صفر کے مہینے میں نحوست، بیماری یا رکاوٹ کا تصور رکھ کر سورۂ مزمل پڑھی جائےیا کالے سفید چھولےتقسیم کیا جائے تو یہ درست نہیں ہے، اگر ویسے ہی تلاوت کرنی ہو، یا کسی جائز مقصد کے لیے کوئی وظیفہ کرنا ہو تو کسی بھی مہینے میں سورہ مزمل پڑھی جاسکتی ہے، اور کسی بھی چیز کو خیرات کی جاسکتی ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعنه، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: " «لا عدوى ولا طيرة ولا هامة ولا صفر، وفر من المجذوم كما تفر من الأسد» . رواه البخاري.

 (ولا صفر) قال شارح: كانت العرب يزعمون أنه حية في البطن، واللدغ الذي يجده الإنسان عند جوعه من عضه. قال أبو داود في سننه، قال بقية: سألت محمد بن راشد عنه؟ قال: كانوا يتشاءمون بدخول صفر، فقال النبي - صلى الله عليه وسلم: " «لا صفر» " قال: وسمعت من يقول: هو وجه يأخذ في البطن يزعمون أنه يعدي. قال أبو داود، وقال مالك: كان أهل الجاهلية يحلون صفرا عاما ويحرمونه عاما، فقال - صلى الله عليه وسلم: " «لا صفر» ".

قال النووي، قيل: كانت العرب تعتقد أن في البطن دابة تهيج عند الجوع، وربما قتلت صاحبها، وكانت العرب تراها أعدى من الحرب، وهذا التفسير هو الصحيح، وبه قال مطرف، وابن عبيد وغيرهما، وقد ذكره مسلم عن جابر بن عبد الله راوي الحديث، فتعين اعتماده. قلت: الأظهر الجمع بين المعاني، فإنها كلها باطلة كما سبق نظيره. قال القاضي: ويحتمل أن يكون نفيا لما يتوهم أن شهر صفر تكثر فيه الدواهي والفتن".

(کتاب اللباس، باب الفأل والطيرة، ج:7، ص:2894، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100998

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں