مقیم شخص سفر کا ارادہ کرے اور مثل اول میں نماز عصر پڑھ لے، تو کیااس کی گنجائش ہے؟
واضح رہے کہ مفتی بہ قول کے مطابق عصر کی نماز کے وقت کی ابتدا ہر چیز کے سائے کے (زوال کے وقت کے سائے کے علاوہ) دو مثل (یعنی دوگنا) ہوجانے کے بعد ہوتی ہے، اس لیے اس وقت سے قبل عصر کی نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔
صورت مسئولہ میں عصر کی نماز مثل اول میں پڑھنا درست نہیں ہے ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"قال ابن عابدين ناقلاً عن السراج:هل إذا لزم من تأخيره العصر إلى المثلين فوت الجماعة يكون الأولى التأخير أم لا؟ الظاهر الأول ، بل يلزم لمن اعتقد رجحان قول الإمام، تأمل ، ثم رأيت في آخر شرح المنية ناقلاً عن بعض الفتاوى أنه لو كان إمام محلته يصلي العشاء قبل غياب الشفق الأبيض فالأفضل أن يصليها وحده بعد البياض".
(کتاب الصلوۃ ،359/1، سعيد)
مبسوط سرخسی میں ہے :
"قال (ووقت الظهر من حين تزول الشمس إلى أن يكون ظل كل شيء مثله) في قول أبي يوسف ومحمد رحمهما الله تعالى ".
(142/1، ط: دار المعرفة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144406100237
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن