بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سفر کی نماز کے متعلق حکم


سوال

سفر  کی نماز کے متعلق شریعت کا کیا حکم  ہے؟   اور سفر میں جمعہ کے دو فرض ہی پڑھیں گے کیا؟

جواب

اگر کوئی شخص تین دن تین  رات کی مسافت کے سفر کے ارادہ سے  اپنے شہر/ قصبے سے نکلے، یعنی  شہر سے باہر 48 میل یاسوا ستتر کلومیٹر کی مسافت پر جائے اور اس شخص کا ارادہ پندرہ دن سے کم قیام کا ہو، خواہ ایک یا دو گھنٹے کے  لیے ہی جا رہا ہو  تو یہ شخص قصر پڑھے گا، بشرطیکہ جہاں قیام کر رہا ہے وہ جگہ مسافر کا وطنِ اصلی نہ ہو۔

قصر کا مطلب یہ ہےکہ ہر چار رکعت والی فرض دو پڑھے گا،مغرب کی نماز حسبِ سابق تین رکعت ہی پڑھی جائے گی۔

سنتوں  کا حکم دورانِ قصر یہ ہے کہ فجر کی سنتوں کے علاوہ باقی نمازوں کی مؤکدہ  سنتیں  نہ  پڑھنے  کا اختیار ہوگا، البتہ پڑھ لینا افضل ہے، اور فجر کی سنتیں ہرحال میں پڑھنی ہوں گی، نیز وتر کی نماز بھی واجب رہے گی۔

اور  اگر شرعی مسافر  مقیم امام کی اقتدا میں کوئی بھی نماز  (پنج وقتہ نمازیں، رمضان المبارک میں تراویح اور وتر، نمازِ جمعہ و عیدین) ادا کرے، تو مقیم کی اقتدا کی وجہ سے اسے یہ تمام نمازیں مکمل ادا کرنی ہوں گی۔ 

مسافر کے لیےشہر میں ہوتے ہوئے جمعہ کی نماز ادا کرنا افضل ہے، اور جمعہ اد اکرنے کی صورت میں  دو فرض ہی ادا کی جائیں گی  اور اگر فوری سفر درپیش نہ ہو تو  پہلے اور بعد کی سنتیں بھی پڑھ لے، تاہم اگر وہ جمعہ کی نماز کے لیےحاضر نہ ہو اور اپنی قیام گاہ میں ظہر کی قصر ادا کرلے تو  شرعاً اس کی اسے اجازت ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"الظهر لهم رخصة فدل علی أن الجمعة عزيمة وهي افضل ..." الخ (٢/ ١٥٥)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201200

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں