بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سفر کی نماز کے مختلف مسائل


سوال

1۔ میں نے شرعی مسافت طے کرکے ایک جگہ 16 دن قیام کیا اور میری نیت 14 دن یا اس سے کم کی تھی، لیکن میں وہاں بغیر کسی کام کے ٹھہرتے ٹھہرتے 17 دن ٹھہر گیا، اور میں نے 15,16,17 ویں دن قصر نماز پڑھی تو کیا میرا یہ عمل درست تھا؟

2۔ جب میں پہلے دن اس سفر پر گیا تو میں اپنے شہر میں تھا اور سواری پرسوار ہوگیا تھا اور ظہر کا وقت شروع ہوگیا تھا، تو کیا مجھے ظہر کی نماز قصر پڑھنی ہوگی یا پوری؟

3۔ اور جب میں اس سفر سے واپس آرہا تھا تو راستے میں ایک گاؤں آیا جہاں سے میرا شہر 25 کلو میٹر دور ہے جب میں وہاں پہنچا تو عشاء کا وقت شروع ہوگیا تھا، تو کیا مجھے عشاء کی نماز قصر پڑھنی ہوگی یا پوری؟

4۔ الحمدللہ یہ تو معلوم ہے کہ مغرب چاہے حضر میں ہو یا سفر میں تین ہی پڑھنی پڑتی ہے، پوچھنا یہ تھا کہ سفر میں مغرب اور بقیہ چاروں نمازوں کی نیّت کس طرح کی جائےگی؟

جواب

اگر کوئی شخص  سوا ستتر (77.25) کلومیٹر  یا اس سے زیادہ سفر کے ارادے سے روانہ ہو اور اپنے شہر/قصبے کی آبادی سے نکل جائے تو وہ شرعی مسافر کہلاتاہے، پھر جب تک وہ اپنے علاقے میں نہ لوٹ آئے یا کسی آبادی میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ اقامت کی نیت سے نہ ٹھہرجائے، تب تک وہ شرعی مسافر رہتاہے۔

شرعی سفر کے دوران پنج وقتہ نماز ادا کرنا اسی طرح فرض ہے جس طرح اقامت کی حالت میں فرض ہے، البتہ اگر شرعی مسافر تنہا نماز ادا کرے یا امامت کرے تو چار رکعات والی فرض نمازیں (ظہر، عصر اور عشاء کے فرائض) چار کے بجائے اسے دو رکعت ادا کرنا لازم ہے، اسے شرعی اصطلاح میں ’’قصر‘‘ کہتے ہیں، اور یہ اللہ تعالیٰ اور اللہ کے رسول ﷺ کی طرف سے رخصت ہے اور اسے قبول کرنا ضروری ہے۔ لیکن اس کے علاوہ فرض (فجر اور مغرب) اور واجب (وتر کی) نمازوں میں قصر نہیں ہے، یہ پوری ادا کرنا ضروری ہے۔ 

اور نماز کا وقت ختم ہوتے وقت آپ جس حالت میں ہوں گے، اسی کا اعتبار ہوگا، یعنی مثلاً: ظہر کی نماز کا وقت جب ختم ہورہا ہو   تو اس وقت اگر آپ مقیم ہوں تو چار رکعت نماز ذمے  میں لازم ہوں گی اور اگر مسافر ہوں تو دو رکعت ذمہ میں لازم ہوں گی۔

۱، ۲، ۳۔ صورت  مسئولہ میں چوں کہ آپ نے ایک جگہ پر پندرہ دن سے کم کی نیت کی تھی، اگرچہ آپ غیر ارادی طور پر وہاں سترہ دن رک گئے ہیں؛  لہذا آپ کو قصر نماز ہی ادا کرنی تھی اور  آپ نے درست کیا کہ قصر نماز ادا کی۔ 

اور سفر شروع کرتے ہوئے ظہر کا وقت  آپ کے علاقہ ہی میں ہوگیا تھا تو اگر آپ وہیں  پر نماز ِظہر اس کے وقت میں ادا کریں گے تو پوری نماز ادا کریں گے اور اگر آپ نے نماز ظہر ادا نہیں کی بلکہ آبادی سے باہر نکل گئے اور ظہر کا وقت باقی ہے تو آپ قصر نماز ادا کریں گے اور اگر آپ کی نماز قضا  ہوگئی اور آپ نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے شہر سے باہر نکل چکے تھے تو آپ ظہر کی نماز  قضا  بھی قصر ہی ادا کریں گے، اور اگر ظہر کی نماز شہر کے اندر ہی قضا ہوگئی، یعنی ظہر کا وقت اپنی شہر میں ہوتے ہوئے ختم ہوگیا تو اس کی قضا مکمل چار رکعات ہی ہوگی، اگرچہ آپ سفر کے دوران ادا کریں۔اور اسی طرح عشاء کی نماز ادا کرنے کا حکم ہے کہ اگر آپ  عشاء کا وقت داخل ہونے کے بعد اپنے شہر  کی حدود میں داخل ہونےسے پہلے  نماز  وہیں  پر (مثلًا: گاؤں میں) ادا کرتے ہیں تو آپ قصر نماز  پڑھیں گے، اور اگر عشاء کا وقت باقی رہتا ہے اور آپ  نے ابھی تک عشاء کی نماز نہیں پڑھی اور شہر میں داخل ہوجاتے ہیں تو  آپ پوری  نماز ادا کریں گے۔

۴۔ نیت کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جو نماز ادا کی جا رہی ہے اس کی نیت دل میں کرے: مثلاً مغرب کی نماز میں تین رکعت مغرب ، فجر کی نماز میں دو رکعت فجر اور باقی جس وقت کی نماز ہو اس میں دو دو رکعت قصر نماز کی نیت کریں گے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 415):

"(والمعتبر فيها عمل القلب اللازم للإرادة) فلا عبرة للذكر باللسان إن خالف القلب؛ لأنه كلام لا نية إلا إذا عجز عن إحضاره لهموم أصابته فيكفيه اللسان، مجتبى (وهو) أي عمل القلب (أن يعلم) عند الإرادة (بداهة) بلا تأمل (أي صلاة يصلي) فلو لم يعلم إلا بتأمل لم يجز.(والتلفظ) عند الإرادة (بها مستحب) هو المختار".

تبيين الحقائق  (1/ 215):

'' قال - رحمه الله - : (والمعتبر فيه آخر الوقت) أي المعتبر في وجوب الأربع أو الركعتين آخر الوقت، فإن كان آخر الوقت مسافراً وجب عليه ركعتان، وإن كان مقيماً وجب عليه الأربع ؛ لأنه المعتبر في السببية عند عدم الأداء في أول الوقت."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 131):

''(والمعتبر في تغيير الفرض آخر الوقت) وهو قدر ما يسع التحريمة (فإن كان) المكلف (في آخره مسافراً وجب ركعتان وإلا فأربع) ؛ لأنه المعتبر في السببية عند عدم الأداء قبله۔
(قوله : والمعتبر في تغيير الفرض) أي من قصر إلى إتمام وبالعكس۔ (قوله: وهو) أي آخر الوقت قدر ما يسع التحريمة، كذا في الشرنبلالية والبحر والنهر، والذي في شرح المنية تفسيره بما لا يبقى منه قدر ما يسع التحريمة، وعند زفر بما لا يسع فيه أداء الصلاة، (قوله: وجب ركعتان) أي وإن كان في أوله مقيماً وقوله: وإلا فأربع أي وإن لم يكن في آخره مسافراً بأن كان مقيماً في آخره فالواجب أربع''.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200512

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں