بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سفرکی حالت میں نمازِ جمعہ پڑھنے کا حکم


سوال

میں نے کچھ دنوں قبل سہارنپور سے پٹنہ کا سفر کیا اور دونوں دنو ں میں جمعہ کی نمازچھوٹ گئی،(یعنی آنے اور جانےمیں)اور میں یہ سمجھ کر ٹکٹ کٹایا کہ مسافر کے لیے جمعہ کی نماز تو نہیں ہے اور  یہ میں نے جان بوجھ کر کیا، لیکن  میں  نے  جمعہ  کی نماز کی جگہ ظہر کی نماز  پڑھ  لی تھی ،لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس طرح سفر کرنے سے اللہ کی ناراضگی آسکتی ہے ،تو کیا مجھے اس طرح کی سفر سے پر ہیز کرنا  چاہیے، یا پھر کوئی حرج نہیں، جیساکہ اس بارمیری چھٹی جمعرات کو ہو رہی ہے تو اس صورت میں میں کیا کروں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں   سہارنپوراور پٹنہ کے درمیان فاصلہ مسافتِ شرعی سے زائد(تقریباً1200کلومیٹر)ہے، لہذا شرعی طوپرسہارنپورسےپٹنہ سفرکرنے کی صورت میں  آپ مسافرشمارہوں گے اورشرعاً مسافرپر نمازِ جمعہ واجب نہیں ہے، لیکن چوں کہ سفرکے دوران بھی مسافرکےلیے نمازِ جمعہ پڑھنا افضل ہے،اس لیےسہولت کے باوجود بلاعذر قصدًا اسے ترک کرنےکا معمول بنانادرست نہیں ہے، اگر سائل کےلیے جمعہ کے علاوہ کسی اور دن سفرکرنا ممکن ہو توایسی صورت میں جمعہ کےدن ہی سفرکو اس لیے   معمول بناناکہ مسافرپر نمازِ جمعہ بھی نہیں ہے،مناسب نہیں ہے، لہذا آئندہ کےلیے اس طرح کرنے اس احتراز کیا جائے،البتہ اتفاقی طورپرایسی صورت پیداہوجائے تو جمعہ کے دن سفر کرنا میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"أي شروط الافتراض (قوله: إن اختار العزيمة) أي صلاة الجمعة؛ لأنه رخص له في تركها إلى الظهر فصارت الظهر في حقه رخصة، والجمعة عزيمة كالفطر للمسافر هو رخصة له والصوم عزيمة في حقه لأنه أشق فافهم۔۔۔(قوله: وفي البحر إلخ) أخذه في البحر من ظاهر قولهم: إن الظهر لهم رخصة فدل على أن الجمعة عزيمة، وهي أفضل إلا للمرأة لأن صلاتها في بيتها أفضل وأقره في النهر."

(کتاب الصلاۃ ،باب الجمعۃ،ج:2،ص:155،ط:سعید)

المحیط البرہانی میں ہے:

"قال أصحابنا رحمهم الله: فرض المسافر في كل صلاة رباعية ركعتان .... حجة علمائنا رحمهم الله حديث عائشة رضي الله عنها: فرضت الصلاة في الأصل ركعتين إلا المغرب، فإنها وتر ثم زيدت في الحضر وأقرت في السفروعن ابن عمررضي الله عنهما أنه قال: صلاة المسافر ركعتان تمام غير قصريتكلم على لسان عليه السلام."

(کتاب الصلاۃ،‌‌الفصل الثاني والعشرون في صلاة السفر:ج،2:ص،21:ط،دار الکتب)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100499

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں