بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سفر کے دوران مغرب کے بعد عشاء کی نماز پڑھنا


سوال

دوران سفر مغرب کی نماز کے 45 منٹ بعد عشاءکی نماز پڑھی جاسکتی ہے جب کہ عشاء کا وقت داخل ہونے میں وقت ہو؟

جواب

واضح رہے کہ نمازوں کے اوقات قرآن وحدیث میں وضاحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں ،ان میں کسی قسم کی تقدیم و تاخیر جائز نہیں ہے،قرآنِ مجید میں اللہ پاک نے فرمایاہے :

"﴿اِنَّ الصَّلوٰةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتَابًا مَّوْقُوْتًا ﴾ ."(النساء:103)

ترجمہ: ’’بے شک نماز مسلمانوں پروقتِ مقررہ کے ساتھ فرض ہے‘‘۔

صورتِ مسئولہ میں ہر نماز کو اس کے اپنے وقت میں ادا کرنا شرعاً ضروری ہے، وقت داخل ہونے سے پہلے اگر کوئی نماز پڑھی گئی تو وہ نماز سرے سے ادا ہی نہیں ہوگی، البتہ سفر کی نمازیں یا کسی عذر کی وجہ سے ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو اس کے اوّل وقت میں پڑھنا جائز ہے، اسے ”جمع صوری“ کہا جاتاہے، لہٰذا دورانِ سفر عشاء کا وقت داخل ہونے سے پہلے ادا کرنا جائز نہیں ہے۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(ولا جمع بين فرضين في وقت بعذر) سفر ومطر خلافاً للشافعي، وما رواه محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً (فإن جمع فسد لو قدم) الفرض على وقته (وحرم لو عكس) أي أخره عنه (وإن صح) بطريق القضاء (إلا لحاج بعرفة ومزدلفة)۔

 (قوله: وما رواه) أي من الأحاديث الدالة على التأخير كحديث أنس «أنه صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل السير يؤخر الظهر إلى وقت العصر فيجمع بينهما، ويؤخر المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء»۔ وعن ابن مسعود مثله."

(کتاب الصلاة: ج:1، ص:382، ط: سعید)

وفیه أیضاً:

" ومن الأحاديث الدالة على التقديم وليس فيها صريح سوى حديث أبي الطفيل عن معاذ «أنه عليه الصلاة والسلام كان في غزوة تبوك إذا ارتحل قبل زيغ الشمس أخر الظهر إلى العصر فيصليهما جميعاً، وإذا ارتحل قبل زيغ الشمس صلى الظهر والعصر ثم سار، وكان إذا ارتحل قبل المغرب أخر المغرب حتى يصليها مع العشاء، وإذا ارتحل بعد المغرب عجل العشاء فصلاها مع المغرب» .

(قوله: محمول إلخ) أي ما رواه مما يدل على التأخير محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً: أي فعل الأولى في آخر وقتها والثانية في أول وقتها، ويحمل تصريح الراوي بخروج وقت الأولى على التجوز كقوله تعالى :﴿ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ ﴾ [البقرة: 234] أي قاربن بلوغ الأجل أو على أنه ظن، ويدل على هذا التأويل ما صح عن ابن عمر: « أنه نزل في آخر الشفق فصلى المغرب ثم أقام العشاء وقد توارى الشفق، ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل به السير صنع هكذا.» " وفي رواية ": ثم انتظر حتى غاب الشفق وصلى العشاء "، كيف وقد قال صلى الله عليه وسلم: «ليس في النوم تفريط، إنما التفريط في اليقظة، بأن تؤخر صلاة إلى وقت الأخرى». رواه مسلم... الخ."

(کتاب الصلاة: ج:1، ص:382، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404101268

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں