بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سفر کے روزہ کا حکم


سوال

سفر کے روزہ  کا کیا حکم ہے؟

جواب

 اگر سفر کی مسافت کی مقدار کم سے کم اڑتالیس میل (سوا ستتر کلومیٹر) یا اس سے زیادہ ہے تو ایسے شخص کو اپنے شہر کی آبادی  سے نکلنے کے بعد روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا اختیار ہوگا، اور نہ رکھنے کی صورت میں بعد میں اس روزہ کی قضا کرنا لازم ہوگی، تاہم  اگر سفر کے دوران روزہ رکھنے  میں  سہولت ہے، دشواری نہیں  ہے تو روزہ رکھ لینا بہتر ہے، اگر روزہ رکھنے میں مشقت اور دشواری ہے تو  اس صورت میں روزہ نہ رکھنے کی بھی اجازت ہے، اور اگر شرعی سفر میں مشقت بہت زیادہ ہو (جس کا تحمل روزہ دار کے لیے مشکل ہو) تو روزہ نہ رکھنا بہترہے، بہر دو صورت بعد میں اس روزہ کی قضا کرلے۔ 

اور  شرعی طور پر اس شخص کے لیے سفر میں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے جو صبح صادق کے وقت سفر میں ہو اورشہر کی آبادی سے نکل چکاہو  اور اگر کوئی شخص صبح صادق کے وقت سفر کی نیت سے نکلنے کے بعد آبادی سے باہر نہ جا چکا ہو  اس کے لیے روزہ چھوڑناجائز نہیں اگرچہ دن میں اس کا سفر میں جانےکاارادہ ہو۔

شرعی مسافر اگر اپنے سفر کی منزل پر پہنچ جائے اور وہاں اس کا پندرہ دن سے کم قیام ہو تو وہاں بھی مسافر ہی شمار ہوگا، اور اگر پندرہ دن سے زیادہ قیام کا ارادہ ہو تو  پھر وہ مسافر نہیں ہوگا، بلکہ مقیم ہوجائے گا اور اس پر روزہ رکھنا لازم ہوں گے۔ باقی مسافر جب سفر کے بعد اپنے وطن پہنچ جائے تو اس  پر پھر باقی ایام  کے روزہ رکھنا لازم ہوں گے اور سفر میں روزہ نہ رکھنے کی وجہ سے ان روزوں کا ثواب کم نہیں ہوگا، البتہ سفر میں جو روزے چھوڑدیے  ہیں ان کی قضا کرنا لازم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌ويندب ‌لمسافر ‌الصوم) لآية {وَأَن تَصُومُوا} [البقرة: 184] والخير بمعنى البر لا أفعل تفضيل (إن لم يضره) فإن شق عليه أو على رفيقه فالفطر أفضل لموافقته الجماعة."

(قوله ويجب عليه الصوم) أي إنشاؤه حيث صح منه بأن كان في وقت النية ولم يوجد ما ينافيه وإلا وجب عليه الإمساك كحائض طهرت ومجنون أفاق كما مر (قوله كما يجب على مقيم إلخ) لما قدمناه أول الفصل أن السفر لا يبيح الفطر، وإنما يبيح عدم الشروع في الصوم، فلو سافر بعد الفجر لا يحل الفطر."

(كتاب الصوم، فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم، ج:2، ص:423،431، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(لمسافر) سفرا شرعيا ولو بمعصية.... (الفطر)."

"(قوله سفرا شرعيا) أي مقدرا في الشرع لقصر الصلاة ونحوه وهو ثلاثة أيام ولياليها."

 (كتاب الصلاة، ‌‌باب صلاة المسافر، ج:2، ص:421، ط:سعيد)

(قوله ويجب عليه الصوم) أي إنشاؤه حيث صح منه بأن كان في وقت النية ولم يوجد ما ينافيه وإلا وجب عليه الإمساك كحائض طهرت ومجنون أفاق كما مر (قوله كما يجب على مقيم إلخ) لما قدمناه أول الفصل أن السفر لا يبيح الفطر، وإنما يبيح عدم الشروع في الصوم، فلو سافر بعد الفجر لا يحل الفطر."

(كتاب الصوم، فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم، ج:2، ص:431، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101238

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں