بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سفر کے دوران روزہ کا حکم


سوال

سفر کے دوران روزہ کا کیا حکم ہے ، مدلل جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

   اگر  شرعی سفر  یعنی  کم سے کم اڑتالیس میل  (سوا  ستتر کلومیٹر  ) یا اس سے زیادہ میں کسی ایک جگہ پندرہ دن  تک قیام کا ارادہ نہیں ہے، تو ایسا شخص شرعاً مسافر ہے اور ایسے شخص کو اپنے شہر  کی آبادی سے نکلنے کے بعد روزہ رکھنے یا نہ رکھنے دونوں کا اختیار ہے، اور نہ رکھنے کی صورت میں بعد میں اس روزہ کی قضا کرنا لازم ہوگی، تاہم  اگر سفر کے دوران روزہ رکھنے  میں  سہولت ہے، دشواری نہیں  ہے  تو روزہ رکھ لینا بہتر ہے، لیکن  اگر شرعی سفر میں مشقت بہت زیادہ ہو (جس کا تحمل روزہ دار کے لیے مشکل ہو) تو روزہ نہ رکھنا بہترہے،اور بعد میں اس روزہ کی قضا کرلے،نیز شرعی طور پر اس شخص کے لیے سفر میں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے جو صبح صادق    سے پہلے سفر میں ہو اور شرعی مسافر بن چکا ہو( یعنی شہر کی آبادی سے نکل چکاہو)،   البتہ اگر سحری کے انتہائے وقت  تک اپنے شہر  کی آبادی کے اندر ہو  ،  تو اس دن کا روزہ رکھنا ضروری ہوگا  ۔

شرعی مسافر اگر اپنے سفر کی منزل پر پہنچ جائے اور وہاں اس کا پندرہ دن سے کم قیام ہو تو وہاں بھی مسافر ہی شمار ہوگا، اور اگر پندرہ دن یا اس  سے زیادہ قیام کا ارادہ ہو تو  پھر وہ مسافر نہیں ہوگا، بلکہ مقیم ہوجائے گا اور اس پر روزہ رکھنا لازم ہو گا ، باقی مسافر جب سفر کے بعد اپنے وطن پہنچ جائے تو اس  پر پھر بقیہ  ایام  کا  روزہ رکھنا لازم  ہوگا  اور سفر میں روزہ نہ رکھنے کی وجہ سے ان روزوں کا ثواب کم نہیں ہوگا، البتہ سفر میں جو روزے چھوڑدیے  ہیں ان کی قضا کرنا لازم ہوگا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ.  (سورة البقرة، آيت:184)

مشكاة المصابيح  میں ہے:

"وعن عائشة رضي الله عنها قالت: إن حمزة بن عمرو الأسلمي قال للنبي صلى الله عليه وسلم أصوم في السفر وكان كثير الصيام. فقال: إن ‌شئت ‌فصم وإن شئت فأفطر."

(‌‌‌‌‌‌كتاب الصوم، باب صوم المسافر، الفصل الأول، ج:1، ص:628، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌ويندب ‌لمسافر ‌الصوم) لآية {وَأَن تَصُومُوا} [البقرة: 184] والخير بمعنى البر لا أفعل تفضيل (إن لم يضره) فإن شق عليه أو على رفيقه فالفطر أفضل لموافقته الجماعة."

(كتاب الصوم، فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم، ج:2، ص:423، ط:سعيد)

الدر المختار  میں ہے:

"(لمسافر) سفرا شرعيا ولو بمعصية.... (الفطر)."

 (كتاب الصلاة، ‌‌باب صلاة المسافر، ج:2، ص:421، ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله سفرا شرعيا) أي مقدرا في الشرع لقصر الصلاة ونحوه وهو ثلاثة أيام ولياليها."

 (كتاب الصلاة، ‌‌باب صلاة المسافر، ج:2، ص:421، ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"والمراد ‌سفر ‌خاص وهو الذي تتغير به الأحكام من قصر الصلاة وإباحة الفطر."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب صلاة المسافر، ج:2، ص:120، ط:سعيد)

الدر المختار  میں ہے:

"(ولو نوى مسافر الفطر) أو لم ينو (فأقام ونوى الصوم في وقتها) قبل الزوال (صح) مطلقا (ويجب عليه) الصوم (لو) كان (في رمضان) لزوال المرخص (كما يجب على مقيم إتمام) صوم (يوم منه) أي رمضان (سافر فيه) أي في ذلك اليوم (و) لكن (لا كفارة عليه لو أفطر فيهما) للشبهة في أوله وآخره."

 (‌‌‌‌كتاب الصوم، فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم، ج:2، ص:431، ط:سعيد)

البحر الرائق  میں ہے :

"بخلاف ‌السفر ‌فإنه ‌ليس ‌بعذر في اليوم الذي أنشأ السفر فيه ولا يحل له الإفطار وهو عذر في سائر الأيام كذا في الظهيرية."

(كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، فصل في عوارض الفطر في رمضان، ج:2، ص:303، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں  ہے:

"(قوله ويجب عليه الصوم) أي إنشاؤه حيث صح منه بأن كان في وقت النية ولم يوجد ما ينافيه وإلا وجب عليه الإمساك كحائض طهرت ومجنون أفاق كما مر (قوله كما يجب على مقيم إلخ) لما قدمناه أول الفصل أن السفر لا يبيح الفطر، وإنما يبيح عدم الشروع في الصوم، فلو سافر بعد الفجر لا يحل الفطر."

(كتاب الصوم، فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم، ج:2، ص:431، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله إن لم يضره) أي ‌بما ‌ليس ‌فيه ‌خوف هلاك وإلا وجب الفطر بحر."

 (كتاب الصوم، فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم، ج:2، ص:423، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100145

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں