بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سفر کے دوران جمع بین الصلاتین کرنا


سوال

کیا میں سفرمیں نمازیں جمع کر سکتا ہوں؟

جواب

واضح کہ شریعتِ مطہرہ نے ہر نماز کا  الگ الگ وقت مقرر کیا ہے، کسی بھی نماز کو اپنے وقت سے مؤخر کرنا یا اپنے وقت سے پہلے پڑھنا جائز نہیں ہے، لہٰذا جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک نماز کے وقت میں پڑھنا جائز نہیں ہے،  اگر کسی نماز کو اپنے وقت سے پہلے پڑھ لیا جائے، تو وہ نماز ہی ادا نہیں ہوگی اوراگر کسی نماز کو اپنے وقت سے مؤخر کردیا جائے، تو وہ نمازبطورِ قضاء کے  درست تو ہوجائے گی، لیکن کسی بھی نماز کو بلا عذر  اپنے وقت سے مؤخر کرنا ناجائز   ہے، لہٰذا اس طرح کرنے والا سخت گناہ گار ہوگا۔

 باقی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دورانِ سفر  یا بارش وغیرہ کی وجہ سے جو دو نمازوں کو جمع فرمایا ہے، تو یہ حقیقتاً جمع کرنا نہیں ہوتا تھا  کہ کوئی نماز اپنے وقت سے پہلے ادا کی ہو، بلکہ صورتاً جمع فرماتے تھے، یعنی مثلاًً ظہر کو آخر وقت میں ادا فرماتے اور عصر کی نماز اول وقت میں ادا فرماتے۔

قرآن کریم میں ہے:

إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا. [سورة النسآء:103]

ترجمہ:"یقیناً نماز مسلمانوں پر فرض ہے اور وقت کے ساتھ محدود ہے۔"

(بیان القرآن، سورۃ النساء، ج:1، ص:403ط: مکتبہ رحمانیہ)

الدر المختار میں ہے:

"(ولا جمع بين فرضين في وقت بعذر) سفر ومطر خلافا للشافعي، وما رواه محمول على الجمع فعلا لا وقتا (فإن جمع فسد لو قدم) الفرض على وقته (وحرم لو عكس) أي أخره عنه.

وفي الرد تحته:

"(قوله: وما رواه) أي من الأحاديث الدالة على التأخير كحديث أنس «أنه - صلى الله عليه وسلم - كان إذا عجل السير يؤخر الظهر إلى وقت العصر فيجمع بينهما، ويؤخر المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء» وعن ابن مسعود مثله. ومن الأحاديث الدالة على التقديم وليس فيها صريح سوى حديث أبي الطفيل عن معاذ «أنه - عليه الصلاة والسلام - كان في غزوة تبوك إذا ارتحل قبل زيغ الشمس آخر الظهر إلى العصر فيصليهما جميعا، وإذا ارتحل قبل زيغ الشمس صلى الظهر والعصر ثم سار، وكان إذا ارتحل قبل المغرب أخر المغرب حتى يصليها مع العشاء، وإذا ارتحل بعد المغرب عجل العشاء فصلاها مع المغرب."

(كتاب الصلاة، ج:1، ص:384، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101199

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں