بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سفر کے دوران حائضہ عورت حیض سے پاک ہوجائے تو قصر کرے گی یا اتمام؟ (تفصیلی جواب)


سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ عورت اگر حالتِ حیض میں اپنے مقام سے ایسے مقام کے لیے سفر کرے جو مسافتِ سفر پر واقع ہو اور راستے میں ایسی جگہ پر پاک ہوجائے جو منزل مسافتِ سفر پر نہیں ہے؟ شامی اور بہشتی زیور میں لکھا ہے کہ وہ پوری نماز پڑھے گی؛ وجہ یہ بیان فرمائی ہے:

" لکن منعها من الصلاة ماليس بصنعها فلغت نيتها من الاول."

اس پر یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ اسقاطِ صلاۃ  کی وجہ سے وہ نیت کی اہل ہی نہ رہی، جب کہ نیت ِسفر کا تعلق صرف صلاة سے نہیں، بلکہ دوسرے مسائل بھی اس سے متعلق ہیں، مثلاً: ایامِ اضحیہ میں اگر یہ عورت مذکورہ حالت میں سفر کرے، تواس پرقربانی واجب نہ ہوگی، تو قربانی کے حق میں سفر کا اعتبار ہے، حالاں  کہ شریعت میں ایسی کوئی مثال ہماری  نظر سے نہیں گزری کہ نیتِ سفر بعض احکامِ سفر کے حق میں معتبر ہو اور بعض کے حق میں نہ ہو؟ جب کہ دیگر مسائل و احکام جو نیت سے متعلق ہیں ان میں اس کی نیت کا اعتبار ہونا بدیہی ہے۔

لہٰذا اگر بغور دیکھا جائے تو حیض، مسقطِ صلاة توہے، مسقطِ اہلیت نہیں ہے، بلکہ بدستور وہ دیگر احکامِ شرع کی پابند ہے؛ کیوں کہ وہ مسلمہ عاقلہ اور بالغہ ہے، اس کی نیت کو محض حیض کی وجہ سے غیر معتبر قرار دینا محل نظر ہے۔ نیز المحيط البرهانی میں ایک صریح جزئیہ ہے :

"وفي متفرقات الامام الفقيه أبو جعفر: وأما الحائض إذا طهرت في بعض الطريق قصرت الصلاة لانها مخاطبة." (المحيط البرهاني 408/2)

نیز ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ علامہ شامی رحمہ اللہ نے شرنبلالی کا جواب جس كتاب "نهج النجاة " سے نقل فرمایاہے، وہ ایک غیر معروف اور مفقود کتاب ہے، بلکہ اس کے منصف کو "هدية العارفین" اور "ايضاح المکنون" میں شافعی کہا گیاہے،  اگر چہ بعض نے حنفی بھی کہا ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ ایک جزئیہ (اتمام والا)  قواعد کے خلاف، نقل کے اعتبار سے کمزور، اور قیاس و درایت سے متصادم ہے،  جب کہ دوسرا جزئیہ (قصروالا) قواعدِ مذہب کے مطابق، اور قائلین اس کے شیخ الاسلام امام فقیہ ابو جعفر ؒ اور علامہ شرنبلالی ؒ جیسے لوگ ہیں،  تو کیا ترجیح یا عمل اس جزئیہ، یعنی "قصر والا" پر نہیں کرنا چاہیے؟

  امید ہے کہ آپ ایسے جواب سے سرفراز فرمائیں گے جو   تثلج بہ الصدور وتخضع له العقولہوگا، وأجركم على الحي القيوم ۔

جواب

 جو عورت حالت ِحیض میں اپنے مقام سے ایسے مقام کے لیے سفر کرے جو مسافت ِسفر (یعنی سوا ستتر کلومیٹر) پر واقع ہو اور راستے میں ایسی جگہ حیض سے پاک ہو جائے جو منزلِ مقصود سے مسافتِ سفر پر نہیں ہے (یعنی اس جگہ سے آگے وطنِ اصلی یا وطنِ اقامت کی مسافت،مسافتِ سفریعنی سوا ستتر کلومیٹر سے کم ہو)  تو ایسی صورت میں  یہ عورت "اتمام" کرے گی (یعنی پوری نماز پڑھے گی)  اور یہی قول مفتیٰ بہ، قابلِ ترجیح اور قیاس کے موافق ہے، ذیل میں اس قول کی وجوہِ ترجیح کو تفصیلاً ذکر کیا جاتا ہے:

(1):جب مذہب کی کتابوں میں کسی مسئلے سے متعلق دومتعارض اقوال ملیں، تو اُن میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے کے لیے اصولِ افتاء میں یہ اصول ذکر کیا جاتا ہے کہ مشائخ کی جانب سے جس قول کی تصحیح ذکر کردی جائے یا اُس پر فتویٰ ہونے کی صراحت کردی جائے، تو اُس قول کو ترجیح حاصل ہوتی ہے،  اور مفتی مقلد کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اُسی قول پر فتویٰ دے، ایسے مسئلہ میں خود سے اجتہاد کرنا یا اپنی رائے سے کسی ایک قول کو ترجیح دینا مفتی مقلد کا اپنے منصب سے تجاوز کرنا ہے۔ 

جیسا کہ شرح عقود رسم المفتی میں ہے:

"أن المشائخ اطَّلعوا على دليل الإمام، وعرفوا مِن أينَ قال؟ واطلعوا على دليل أصحابه، فقد يُرجحون دليل أصحابه على دليله، فيفتون به. ولا يُظَنُّ بهم أنَّهم عدلوا عن قوله لجهلهم بدليله، فإنَّا نراهم قد شَحَنُوا كتبهم بنصب الأدلة، ثم يقولون : الفتوى على قول أبي يوسف مثلاً. وحيثُ لم نكن نحن أهلاً للنظر في الدليل، ولم نَصِل إلى رتبتهم في حصول شرائط التفريع والتأصيل، فعلينا حكاية ما ينقلونه، لأنَّهم هم أتباع المذهب الذين نصبوا أنفسهم لتقريره وتحريره باجتهادهم."

(ص: ٤٦، ط: المكتبة البشرىٰ)

مقدمۃ عمدۃ الرعایۃ میں ہے:

"أنّ مافي المتون مقدّم على مافي الشروح، ومافي الشروح على مافي الفتاوى، فإذا وجدت مسألة في المتون الموضوعة لنقل المذهب ووجد خلافُها في الشروح أُخذ بمافي المتون، وإذا وقعت المخالفة بين مافي الشروح وبين مافي الفتوى، أُخذ بمافي الشروح، لكن هذا إذا لم يوجد التصحيح الصريحي في الطبقة التحتانية."

(الدراسة الثالثة: طبقات المسائل، ص: ٤٥، ط: قديمي)

اور اصول الافتاء وآدابہ میں ہے:

"المفتي المقلد يفتي بما رجحه أصحاب الترجيح من المشايخ الحنفية، ولا يأخذ بالأقوال المرجوحة."

(الأصل الرابع، ص: ٢٠٦، ط: دارالقلم)

مذکورہ بالا مسئلہ میں قصر والے قول  کو  صاحبِ محیطِ برہانی نے فقیہ ابوجعفرالہندوانیؒ سے نقل کیا ہے، مگر ساتھ ہی الحاوی  کے حوالے سے دوسرا قول (اتمام والا) بھی نقل کیا ہے، اور ترجیح کسی کو نہیں دی، اور نہ ہی تصحیح یا فتوے کی صراحت کی ہے، جیسا کہ المحیط البرہانی میں ہے:

"وفي «متفرقات الفقيه أبي جعفر» : فإنهما يصليان أربعاً؛ لأنهما لم يكونا مخاطبين فلا يقصران الصلاة، وأما الحائض إذا طهرت في بعض الطريق قصرت الصلاة؛ لأنها مخاطبة.

وفي «الحاوي» : سئل عن صبي خرج من نوركارايريد بخارى، فلما بلغ كرمة بلغ، قال: يصلي ركعتين إلى بخارى، وكذلك الكافر إذا أسلم فأما الحائض إذا طهرت من حيضها تصلي أربعاً إلى بخارى."

(كتاب الصلاة، ‌‌الفصل الثاني والعشرون في صلاة السفر، نوع آخر في هذا الفصل في المتفرقات، ٢/ ٤١، ط: دارالكتب العلمية)

 اسی طرح "أحکام الصغار" میں علامہ اَستروشنی ؒ نے پہلے اتمام والا جزئیہ نقل کیا ہے پھر شیخ الاسلام برہان الدین ؒ کے حوالے سے قصر کا قول نقل کیا ہے، مگر انھوں نے بھی ترجیح کسی کو نہیں دی، جیسا کہ أحکام الصغار میں ہے:

"والحائض إذا طهرت وبينها وبين المقصد أقل من ثلاثة أيام تصلي أربعاً .

ورأيت في فوائد شيخ الإسلام برهان الدين رحمه الله : سئل عن صبي وحائض وكافر خرجوا إلى السفر فلما بقي من المقصد أقل من مسيرة السفر أسلم الكافر وظهرت الحائض وبلغ الصبى من يقصر ومن يتم ؟ أجاب رحمه الله الصبي يتم ، والكافر والحائض يقصران. والله أعلم ."

(في مسائل الصلاة، ص: ١٩، ط: دارالكتب العلمية)

اس کے برخلاف "اتمام"  والے جزئیہ کو  خزانۃ المفتین، البنایۃ،حلبی کبیر، فتاویٰ تاتارخانیہ،  الدرالمختاروغیرہ میں نقل کرکے اس کی تصحیح ذکر کی گئی ہے، عبارات ملاحظہ ہوں:

خزانۃ المفتین میں ہے:

"الحائض إذا طهرت من حيضها وبينها وبين المقصد أقل من مسيرة ثلاثة أيام ‌تصلي ‌أربعا، هو الصحيحظ."

(كتاب الصلاة، فصل في السفر، ص: ٥٦، مخطوط)

الحلبی الکبیر میں ہے:

"والحائض إذا طهرت وقد بقي بينها وبين مقصدها أقل من ثلاثةأىام، تتم الصلوة وهو الصحيح، ذكره في الظهيرية."

(فصل في صلاة المسافر، ص: ٥٤٢، ط: دارسعادت)

البنایہ شرح الہدایہ میں ہے:

"ولو طهرت الحائض في السفر، وبينهما وبين المقصد أقل من مسيرة سفر ‌تتم، ‌هو ‌الصحيح."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ٣/ ٣٨، ط: دارالكتب العلمية)

فتاویٰ  تاتارخانیہ میں ہے:

"وفي الظهيرية: الحائض إذا طهرت من حيضها و بينها و بين  المقصد أقل من مسيرة ثلثة أيام تصلي أربعا، هو الصحيح."

(كتاب الصلاة، باب المسافر، الفصل الثاني والعشرون في صلاة السفر، ٢/ ٥٠٥، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية)

منحۃ الخالق حاشیۃ البحرالرائق میں ہے:

"(قوله لعدم صحة القصد والنية من الصبي) أقول: ذكر في السراج، وكذا في التتارخانية عن الظهيرية الحائض إذا طهرت من حيضها وبينها وبين المقصد أقل من مسيرة ثلاثة أيام ‌تصلي ‌أربعا هو الصحيح اهـ. فليتأمل."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ٢/ ١٣٩، ط: دارالكتاب الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"طهرت الحائض ‌وبقي ‌لمقصدها يومان تتم في الصحيح كصبي بلغ بخلاف كافر أسلم.

وقال عليه في الرد: (قوله ‌تتم ‌في ‌الصحيح) كذا في الظهيرية. قال ط وكأنه لسقوط الصلاة عنها فيما مضى لم يعتبر حكم السفر فيه فلما تأهلت للأداء اعتبر من وقته.

(قوله كصبي بلغ) أي في أثناء الطريق وقد بقي لمقصده أقل من ثلاثة أيام فإنه يتم ولا يعتبر ما مضى لعدم تكليفه فيه ط.

(قوله بخلاف كافر أسلم) أي فإنه يقصر. قال في الدرر لأن نيته معتبرة فكان مسافرا من الأول بخلاف الصبي فإنه من هذا الوقت يكون مسافرا، وقيل يتمان، وقيل يقصران. اهـ. والمختار الأول كما في البحر وغيره عن الخلاصة.

قال في الشرنبلالية: ولا يخفى أن الحائض لا تنزل عن رتبة الذي أسلم فكان حقها القصر مثله. اهـ.

وأجاب في نهج النجاة بأن مانعها سماوي بخلافه اهـ أي وإن كان كل منهما من أهل النية بخلاف الصبي، لكن منعها من الصلاة ما ليس بصنعها فلغت نيتها من الأول، بخلاف الكافر فإنه قادر على إزالة المانع من الابتداء فصحت نيته"

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ٢/ ١٣٤، ط: سعيد)

لہٰذا اصولِ افتاء کے مطابق "اتمام" والا جزئیہ ہی راجح ہے۔

(2): نیز محیطِ برہانی میں صاحبِ کتاب نے فقیہ ابوجعفر ؒ کا جو قول نقل کیا ہے، وہ اس وجہ سے بھی مرجوح ہے کہ اس میں اُنھوں نے مذکورہ صورت میں کافر اور بچے  دونوں کے لیے اتمام کا قول نقل کیا ہے، عبارت ملاحظہ ہو:

"وإذا أسلم الكافر في سفره وبينه وبين المقصد أقل من ثلاثة أيام أو إذا أدرك الصبي في سفره وبينه وبين المقصد أقل من ثلاثة أيام، فقد اختلف المشايخ فيه بعضهم قالوا: الذي أسلم يصلي ركعتين فالذي بلغ يصلي أربعاً وقال بعضهم: يصليان ركعتين. وفي «متفرقات الفقيه أبي جعفر» : فإنهما يصليان أربعاً؛ لأنهما لم يكونا مخاطبين فلا يقصران الصلاة، وأما الحائض إذا طهرت في بعض الطريق قصرت الصلاة؛ لأنها مخاطبة."

 (كتاب الصلاة، ‌‌الفصل الثاني والعشرون في صلاة السفر، نوع آخر في هذا الفصل في المتفرقات، ٢/ ٤٠، ط: دارالكتب العلمية)

حالاں کہ مختار قول کے مطابق ایسی صورت میں کافر قصر کرے گا اور بچہ اتمام کرے گا، جیسا کہ خلاصۃ الفتاویٰ میں ہے:

"صبي ونصراني خرجا إلى سفر مسيرة ثلثة أيام فلما سارا يومين أسلم النصراني وبلغ الصبي، فالنصراني يقصر الصلوة فيما بقي من سفره والصبي يتم الصلوة بناء على أن نية الكافر معتبرة، وهو المختار."

(كتاب الصلاة، الفصل الثاني والعشرون في صلاة المسافر، ص: ٤٩، مخ: المكتبة الأزهرية)

اور دررالحکام شرح غرر الاحکام میں ہے:

"(سافر كافر وصبي مع أبيه) أي خرجا قاصدين مسيرة ثلاثة أيام فصاعدا (فأسلم) الكافر (وبلغ) الصبي (وبينهما وبين منزلهما) أي مقصدهما بالسفر (أقل من المدة قالوا) أي عامة المشايخ (المسلم يقصر) فيما بقي من السفر (والصبي يتم)؛ لأن نية الكافر معتبرة ‌فكان ‌مسافرا من الأول بخلاف الصبي فإنه من هذا الوقت يكون مسافرا إذ الفرض أن الباقي ليس بمدة السفر (وقيل يتمان) بناء على عدم العبرة بنية الكافر (أيضا، وقيل يقصران) بناء على تبعية الابن للأب المسافر."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ١/ ١٣٦، ط: دارإحياء الكتب العربية)

البحر الرائق میں ہے:

"وعلى اعتبار القصد تفرع في صبي ونصراني خرجا قاصدين مسيرة ثلاثة أيام ففي أثنائها بلغ ‌الصبي وأسلم الكافر يقصر الذي أسلم فيما بقي ويتم الذي بلغ لعدم صحة القصد والنية من ‌الصبي حين أنشأ السفر بخلاف النصراني والباقي بعد صحة النية أقل من ثلاثة أيام وسيأتي أيضا."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ٢/ ١٣٩، ط: دارالكتاب الإسلامي)

نیز فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله بخلاف كافر أسلم) أي فإنه يقصر. قال في الدرر لأن نيته معتبرة فكان مسافرا من الأول بخلاف الصبي فإنه من هذا الوقت يكون مسافرا، وقيل يتمان، وقيل يقصران. اهـ. والمختار الأول كما في البحر وغيره عن الخلاصة."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ٢/ ١٣٤، ط: سعيد)

پس  معلوم چلا کہ محیطِ برہانی میں فقیہ ابوجعفر الہندوانی ؒ کا نقل کردہ مذکورہ بالا قول مرجوح ہے، اور بلاکسی وجہ ترجیح کے حائضہ کے معاملے میں اُن کا قول لینا اور کافر کے معاملے میں نہ لیناعقل اور نقل کے مخالف ہونے کی بناء پر درست نہیں ، لہٰذا جس طرح مذکورہ صورت میں کافر کے معاملے  میں اُن کا قول نہیں لیا جائے گا، اسی طرح حائضہ کے معاملے میں بھی نہیں لیا جائے گا۔

(3):اتمام والا قول درایت اور قیاس کے بھی موافق ہے؛ کیوں کہ  مسافت ِ سفر طے کرنے کا قصد و ارادہ،  احکام (نماز روزہ وغیرہ)  میں تخفیف پیدا کرنے  کا سبب ہے،  اس بناء پر اس قصد کے صحیح ہونے کے لیے  یہ دیکھا جاۓ گا  کہ قصد کرنے والا بوقت ِ قصد، اُس حکم کا  (جس میں سفر کی وجہ سے تخفیف پیدا ہونی ہے) مکلف بھی ہے یا نہیں ؟ اگر وہ اس حکم کا مکلف نہ ہو، تو ظاہر ہے کہ اس کا قصد  اس حکم کے حق میں لغو ہوگا؛ کیوں کہ جب محل ہی نہیں ہوگا تو عامل کہاں اثر کرے گا؟

یہی معاملہ  حیض کے باب میں ہے کہ حیض کی وجہ سے عورت بعض احکام جیسےحج و عمرہ کے احرام کی نیت اور  قربانی وغیرہ کی تو مکلف ہوتی ہے،  مگر بعض احکام جیسے نماز ،روزہ  کی مکلف نہیں ہوتی، لہٰذا حالتِ حیض میں عورت جن احکام  کی مکلف نہیں رہتی، تو اُن احکام میں اُس کی نیتِ سفر بھی معتبر نہیں  اور جن احکام کی مکلف رہتی ہے تو اُن احکام میں  اُس کی نیت ِسفر بھی معتبر ہے، جیسا کہ بچے کی نیت سفرِ نماز وغیرہ کے حق میں معتبر نہیں؛ کیوں کہ وہ اس کا مکلف ہی نہیں، لہٰذا حیض صرف مسقطِ صلوٰۃ نہیں ہے، بلکہ حائضہ کے لیے نماز کے حق میں مسقط ِاہلیت بھی ہے، اور یہی بات قواعد ِ مذہب کے مطابق بھی ہے، چناں چہ بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو حاضت المرأة ونفست بعد طلوع الفجر فسد صومها لأن ‌الحيض ‌والنفاس ‌منافيان للصوم لمنافاتهما أهلية الصوم شرعا بخلاف القياس بإجماع الصحابة رضي الله عنهم."

(كتاب الصوم، ٢/ ٩٤، ط:دارالكتب العلمية)

حاشیہ طحطاوی علی الدر المختار میں ہے:

"طهرت الحائض و بقي لمقصدها يومان تتم في الصحيح.

(قوله: في الصحيح) كأنه لسقوط الصلاة عنها  فيما مضي لم يعتبر حكم السفر فيه، فلما تأهلت للأداء اعتبر من وقته."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ٢/ ٥٩٣، ط:دارالكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

"وفائدة إضافته إلى الجزء الأخير اعتبار حال المكلف فيه فلو ‌بلغ ‌صبي ‌أو ‌أسلم ‌كافر وأفاق مجنون أو طهرت الحائض أو النفساء في آخر الوقت بعد مضي الأكثر تجب عليهم الصلاة، ولو كان الصبي قد صلاها في أوله وبعكسه لو جن أو حاضت أو نفست فيه لم يجب لفقد الأهلية عند وجود السبب."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ٢/ ١٤٩، ط:دار الكتاب الإسلامي)

لہٰذا جب حیض مسقط ِاہلیت ہے، تو ابتدائے سفر میں حیض کی وجہ سے عورت نماز کی اہل نہ تھی، چناں چہ نماز کی ادائیگی کا حکم (خواہ سفرانہ ہو، خواہ پوری نماز ہو)  اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا، اور جب وہ شریعت کی طرف سے نماز کی مکلف ہی نہیں، تو نماز کے حق میں اس کی نیت ِسفر بھی معتبر نہیں ہوئی، جیسے بچے کی نیت ِسفر معتبر نہیں ہوتی، البتہ جب وہ عورت پاک ہو گئی اور نماز کی اہل ہو گئی، تو اب یہیں سے نماز کے حق میں اس کی نیت ِسفر معتبر ہوگی، چناں چہ اگر اُس کی منزلِ مقصود، مسافت ِ سفر (یعنی سوا  ستترکلومیٹر) سے کم پر واقع ہے، تو عورت اتمام کرے گی ورنہ قصر کرے گی۔

باقی قربانی کے حق میں حائضہ کے قصد کا اعتبار اس وجہ سے ہے کہ حیض، حائضہ کے لیے  وجوب ِ اضحیہ سے مانع نہیں ہے، لہٰذا قربانی کے حق میں مسقط ِ اہلیت بھی نہیں ہے، اس لحاظ سے قربانی کے حق میں  حائضہ کی نیتِ سفر معتبر ہوگی، وہ  مسافر کا حکم رکھے گی اور اس پر قربانی واجب نہیں ہوگی ۔

(4): محیطِ برہانی  میں فقیہ ابوجعفر الہندوانی ؒ کے حوالے سے قصر کا جو قول نقل کیا گیا ہے، جس میں "لأنها مخاطبة" سے حالتِ حیض میں بھی حائضہ کے مخاطب ہونے کی بات کی گئی ہے، وہ  مذکورہ بالا تفصیل کی رُو سے درست معلوم نہیں ہوتی؛ کیوں کہ جن احکام کا ثبوت شرعی طور پر حالتِ حیض میں ہوتا ہے، حائضہ اُن احکام کی تو مخاطب ہے، لیکن وہ نماز کی مخاطب نہیں ہے، اور جب وہ نماز کی مخاطب نہیں تو نماز کے حق میں اس کا قصد اور  نیت کس طرح معتبر  ہوسکتا ہے؟غالباً اسی اشکال کے باعث  صاحبِ محیط نے اگلی ہی سطر میں "حاوی" سے اتمام کا قول بھی نقل کیا ہے۔

"وفي «متفرقات الفقيه أبي جعفر» : فإنهما يصليان أربعاً؛ لأنهما لم يكونا مخاطبين فلا يقصران الصلاة، وأما الحائض إذا طهرت في بعض الطريق قصرت الصلاة؛ لأنها مخاطبة.

وفي «الحاوي» : سئل عن صبي خرج من نوركارايريد بخارى، فلما بلغ كرمة بلغ، قال: يصلي ركعتين إلى بخارى، وكذلك الكافر إذا أسلم فأما الحائض إذا طهرت من حيضها تصلي أربعاً إلى بخارى."

(كتاب الصلاة، ‌‌الفصل الثاني والعشرون في صلاة السفر، نوع آخر في هذا الفصل في المتفرقات، ٢/ ٤١، ط: دارالكتب العلمية)

 

باقی  علامہ شامیؒ نے"نھج النجاة  إلي مسائل المقناة"سے مذکورہ صورت میں صرف مسلم اور حائضہ  میں فرق نقل کیا ہے، اور علامہ شرنبلالیؒ کے اشکال کا جواب دیا ہے، اتمام والا جزئیہ نقل نہیں کیا، اتمام والا جزئیہ تو مذہب کی کتب ِ معتبرہ میں مذکور ہے، جیسا کہ اوپر عرض کردیا گیا۔

نیز قصر والے جزئیہ کو صرف صاحبِ محیط، امام ابن مازہ بخاریؒ (ت۶۱۶ھ) نے اور صاحبِ أحکام الصغار، امام محمد بن محمود الأستروشنی ؒ (ت۶۳۲ھ) نےنقل کیا ہے، اور ترجیح کسی کو نہیں دی نہ ہی تصحیح یا فتوے کی صراحت کی ہے، جب کہ اتمام والے جزئیہ کو صاحبِ فتاویٰ ظہیریہ، ظہیرالدین محمد بن احمد البخاری (ت۶۱۹ھ) نے ذکر کیا ہے، اور اس کی تصحیح بھی کی ہے، اور اس کے بعد مذہب کی کتبِ معتبرہ نے اسے نقل کیا ہے اور اسے ہی صحیح قرار دیا ہے(تفصیلی  عبارات نمبر 1 میں مذکور ہیں)، اور صاحبِ فتاویٰ ظہیریہ، صاحبِ محیط کے ہم عصر ہیں، اور ان دونوں حضرات کی کتابیں ایک ہی درجہ (فتاویٰ ونوازل) میں شمار ہوتی ہیں، لہٰذا "اتمام" والے  جزئیہ کو یہ کہہ کررد کردینا کہ اس کے ناقل علامہ شامیؒ ہیں جو متاخرینِ حنفیہ میں سے ہیں، محلِ نظر ہے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اتمام والا جزئیہ، نقل کے اعتبار سے مضبوط، قواعدِ مذہب واصولِ افتاء کے مطابق، اور قیاس ودرایت کے موافق ہے، لہٰذا یہی قول مفتیٰ بہ ہے۔

فقط واللہ تعالیٰ أعلم


فتوی نمبر : 144503102803

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں