بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سفرکے متفرق مسائل


سوال

 میرا تعلق نواب شاہ سے ہے ،اور میں شہر سے باہر کراچی میں سرکاری نوکری کرتا ہوں ،جو کہ تقریبا 275 کلومیٹر بنتا ہے، اور فیملی نواب شاہ میں رہتی ہے، میرا معمول ہے کہ میں ہر جمعہ کی نماز کے بعد کراچی سے نکل کر نواب شاہ چلا جاتا ہوں اور پیر کے دن صبح صبح نواب شاہ سے واپس کراچی آجاتا ہوں، یہاں کراچی میں ایک فلیٹ کرائے پر لیا ہوا ہے، اور ضروریات زندگی کی ہر آسائش موجود ہےاب معلوم کرناہےکہ:

1-کیا میں مسافر ہوں؟ اگر مسافر ہوں تو کس شہر میں مسافر ہوں؟نیز نواب شاہ سے کراچی آتے ہوئے گاڑی میں بیٹھے ہوئے اگر کسی نماز کا ٹائم داخل ہو جائے، اور میں شہر کی حدود میں ہی ہوں، تو وہ نماز قصر ہوگی یا نہیں؟اوراگرکراچی سے نواب شاہ جاتے ہوئے شہر کی حدود میں داخل ہو گیا، لیکن گھرتک ابھی بھی 15 یا 20 منٹ کا راستہ باقی ہے، اور کسی نماز کا وقت داخل ہو گیا، تو نماز قصر ہوگی یا نہیں؟

2-قصر نماز میں سنت مؤکدہ کا کیا حکم ہے؟

3-جمعہ کی نماز جو کہ میں کراچی میں ادا کرتے ہی نکل جاتا ہوں، تو کیا جمعہ ہی ادا کروں یا ظہر؟

4- قصر نماز پڑھنے کے بجائے اگر تمام نمازیں پوری ادا کر لوں تو کوئی حرج تو نہیں؟  اوراگرمیں نےقصرکےبجائےپوری نمازپڑھی ہو،یاپوری نمازکےبجائےقصرکیاہو،توان نمازوں کاکیاحکم ہے؟

جواب

1- واضح رہےکہ اگرکوئی مسافر15 دن سےکم مدت کےلیےکہیں جانےکی نیت سےسفر کرے،اورمنزلِ مقصوداوراس شخص کےدرمیان 48میل یعنی سواستترکلومیٹرکافاصلہ ہو،توجیسےہی یہ مسافراپنےشہرکی آبادی سےنکل جائے،اس پرقصرکرناواجب ہوتا ہے،اورجب اپنےشہرواپس جانےلگے،توجب شہرکےحدودمیں داخل ہوجائے،تواس پرنمازمکمل کرناضروری ہوجاتاہے؛لہذاصورتِ مسئولہ میں سائل چوں کہ  15 دن سےکم مدت کےلیےکراچی آتاہے،توسائل پرمسافروں والےاحکام جاری ہوں گے،اورسائل پرشہرِکراچی میں قصرکرناواجب ہے،اورگاڑی میں سوارہونےکےبعد،سائل جب نواب شاہ شہرکےحدودکےاندرہو،توسائل پرپوری نمازاداکرناضروری ہوگا،اورکراچی سےجاتےہوئے،سائل جب بھی نواب شاہ شہرکےحدودمیں داخل ہوگا،توسائل پرنمازمکمل کرناضروری ہے،اگرچہ گھرپہنچنےتک کچھ فاصلہ باقی ہو۔

2-اگرسفرمیں کوئی خطرہ وغیرہ نہ ہو،اوروقت بھی ہوتوسنتیں پڑھنابہرحال بہترہے،اورخصوصاًفجرکی سنت تواداکرناضروری ہے،اوراگرسفرمیں کوئی خوف وخطرہ ہو،توسنتوں کوچھوڑاجاسکتاہے،البتہ وترکاپڑھناواجب ہے۔

3- کراچی میں سائل چوں کہ مسافرہوتاہے؛اس لیےسائل پرجمعہ واجب نہیں ہے،البتہ اگرسائل جمعہ کی نمازاداکرناچاہے،تواداکرسکتاہے،اورسائل کی جمعہ کی نمازاداہوجائےگی۔

4- مسافرپرقصرکرناواجب ہے،اورقصداً قصرنہ کرنےسےگناہ گارہوگا،اوراگرکوئی مسافرقصرکےبجائےپوری نمازپڑھ لے،تواگردوسری رکعت میں قعدہ کرلے،تونمازہوجائےگی،وگرنہ نہیں،اوراس صورت میں اعادہ لازم ہوگا؛لہذاسائل پرلازم ہےکہ مسافرہونےکی حالت میں قصرنمازپڑھے،اوراگرحالتِ اقامت میں قصرنمازپڑھی ہو،تواس پردوبارہ پوری نمازپڑھنالازم ہوگا۔

نوٹ:سفروالی نمازوں کی قضاء قصرکی صورت میں ،اوراقامت کی نمازوں کی قضاءچارچاررکعت  کرکے کی جائےگی،چاہیں گھرمیں قضاء کرے،یاسفرمیں۔

البحرالرائق میں ہے:

"(قوله من جاوز بيوت مصره مريدا سيرا وسطا ثلاثة أيام في بر أو بحر أو جبل قصر الفرض الرباعي) بيان للموضع الذي يبتدأ فيه القصر ولشرط القصر ومدته وحكمه أما الأول فهو مجاوزة بيوت المصر . . . وفي المحيط وكذا إذا عاد من سفره إلى مصر لم يتم حتى يدخل العمران."

(كتاب الصلاة،باب صلاة المسافر،١٣٨/٢،ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"ولا قصر في السنن، كذا في محيط السرخسي، وبعضهم جوزوا للمسافر ترك السنن والمختار أنه لا يأتي بها في حال الخوف ويأتي بها في حال القرار والأمن، هكذا في الوجيز للكردري."

(كتاب الصلاة،الباب الخامس عشرباب صلاة المسافر،١٣٩/١،ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"للجمعة شرائط، بعضها يرجع إلى المصلي، وبعضها يرجع إلى غيره.أما الذي يرجع إلى المصلي فستة: العقل، والبلوغ، والحرية والذكورة، والإقامة، وصحة البدن فلا تجب الجمعة على المجانين والصبيان والعبيد إلا بإذن مواليهم، والمسافرين والزمنى، والمرضى. . . ثم هؤلاء الذين لا جمعة عليهم إذا حضروا الجامع وأدوا الجمعة فمن لم يكن من أهل الوجوب كالصبي والمجنون فصلاة الصبي تكون تطوعا ولا صلاة للمجنون رأسا، ومن هو من أهل الوجوب كالمريض والمسافر والعبد والمرأة وغيرهم تجزيهم ويسقط عنهم الظهر؛ لأن امتناع الوجوب عليهم لما ذكرنا من الأعذار وقد زالت."

(كتاب الصلاة،فصل  صلاة الجمعة،٢٥٨/١،ط:دار الكتب العلمية)

الدرمع الردمیں ہے:

"(صلى الفرض الرباعي ركعتين) وجوبا لقول ابن عباس: «إن الله فرض على لسان نبيكم صلاة المقيم أربعا والمسافر ركعتين» ، ولذا عدل المصنف عن قولهم قصر لأن الركعتين ليستا قصرا حقيقة عندنا بل هما تمام فرضه والإكمال ليس رخصة في حقه بل إساءة.

قلت: وفي شروح البخاري أن الصلوات فرضت ليلة الإسراء ركعتين سفرا وحضرا إلا المغرب فلما هاجر - عليه الصلاة والسلام - واطمأن بالمدينة زيدت إلا الفجر لطول القراءة فيها والمغرب لأنها وتر النهار فلما استقر فرض الرباعية خفف فيها في السفر عند نزول قوله تعالى {فليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة} [النساء: 101] وكان قصرها في السنة الرابعة من الهجرة وبهذا تجتمع الأدلة اهـ كلامهم فليحفظ.(قوله صلى الفرض الرباعي) خبر من في قوله من خرج، واحترز بالفرض عن السنن والوتر وبالرباعي عن الفجر والمغرب.

(قوله وجوبا) فيكره الإتمام عندنا حتى روي عن أبي حنيفة أنه قال: من أتم الصلاة فقد أساء وخالف السنة شرح المنية. . .(قوله لأن الركعتين إلخ) بدل من قوله ولذا عدل المصنف. قال في البحر: ومن مشايخنا من لقب المسألة بأن القصر عندنا عزيمة والإكمال رخصة. قال في البدائع: وهذا التلقيب على أصلنا خطأ لأن الركعتين في حقه ليستا قصرا حقيقة عندنا بل هما تمام فرض المسافر والإكمال ليس رخصة في حقه بل إساءة ومخالفة للسنة ولأن الرخصة اسم لما تغير عن الحكم الأصلي بعارض إلى تخفيف ويسر ولم يوجد معنى التغيير في حق المسافر رأسا إذ الصلاة في الأصل فرضت ركعتين ثم زيدت في حق المقيم كما روته عائشة - رضي الله تعالى عنها -، وفي حق المقيم وجد التغيير لكن إلى الغلظ والشدة لا إلى السهولة واليسر فلم يكن ذلك رخصة في حقه أيضا ولو سمي فهو مجاز لوجود بعض معاني الحقيقة وهو التغيير انتهى."

(كتاب الصلاة،باب صلاة المسافر،١٢٣/٢،ط:سعيد)

دررالحکام میں ہے:

"(وإن لم يقصر) عطف على قوله فيقصروا والضمير للمسافر أي إن لم يقصر المسافر بل أتم الأربع (فإن قعد الأولى تم فرضه) ؛ لأن فرضه ثنتان فالقعدة الأولى فرض عليه فإذا وجدت يتم فرضه.

(و) لكنه (أساء) لتأخير السلام وتركه واجب تكبيرة الافتتاح في النفل وشبهه عدم قبول صدقة الله تعالى، ولأن القصر عندنا رخصة إسقاط وحكمه أن يأثم العامل بالعزيمة (وما زاد) على الركعتين (نفل وإلا) أي، وإن لم يقعد الأولى (بطل فرضه) وانقلب الكل نفلا لما عرفت أنه ترك فرض."

(باب صلاة المسافر،١٣٤/١،ط:دار إحياء الكتب العربية)

تنویرالابصارمیں ہے:

"(والقضاء يحكي) أي يشابه (الأداء سفرا وحضرا) لأنه بعدما تقرر لا يتغير غير أن المريض يقضي فائتة الصحة في مرضه بما قدر."

(كتاب الصلاة،باب صلاة المسافر،١٣٤/٢،ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501100276

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں