بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سفرِ عمرہ میں حیض روکنے کے لیے دوا استعمال کرنا


سوال

 کیا ہم عمرہ پر جاتے وقت حیض کو روکنے کے لیے کوئی دوا لے سکتے ہیں؟ اگر نہیں توپھر حیض کے دوران عمرہ کیسے ادا کیا جائے؟

جواب

عورت کوحیض آنا ایک طبعی اور فطری امر ہے اور فطری امر کو وقت سے پہلے روکنے اورختم کرنے میں  نقصان کا اندیشہ ہے،جس  سےانسانی صحت کو ضرر لاحق  ہوسکتاہے؛اس لیےاگر سفر کے دوران   مانعِ حیض دوا استعمال کرنامضرِ صحت ہوتو دوا استعمال نہیں کرنی چاہیے،ایسی صورت میں  اگر عمرہ کے سفر سے  پہلے حیض آجاۓ تو عورت میقات سے احرام باندھ کر  چلی جائے ، جب حیض سے پاک ہوجائے تو پھر عمرہ ادا کرے۔

اور اگر ایسی دوا کا استعمال مضر صحت نہ ہو یا مضر صحت ہونے کے باوجود  واپسی کا وقت تھوڑا  ہونےاور آئندہ مہلت نہ ملنے کی وجہ سےدوااستعمال کرلی اور حیض نہیں آیا تو عورت پاک  شمار ہو گی اور اس پر پاکی والے تمام احکامات جاری ہوں گے،چناں چہ  اس صورت میں عمرہ اور طواف کی ادائيگي  بالکل درست ہوگی ۔

الفقہ علی المذاھب الأربعۃ میں ہے:

"لا يجوز للمرأة أن تمنع حيضها، أو تستعجل إنزاله إذا كان ذلك يضر صحتها، لأن ‌المحافظة ‌على ‌الصحة ‌واجبة."

(كتاب الطهارة، مباحث الحيض، تعريف الحيض، ج:1، ص:101، ط:دارالحديث - القاهرة)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"إذا ‌حاضت ‌المرأة ‌أو ‌نفست عند الإحرام اغتسلت للإحرام وأحرمت وصنعت كما يصنعه الحاج، غير أنها لا تطوف بالبيت حتى تطهر، وإذا حاضت المرأة أو نفست فلا غسل عليها بعد الإحرام، وإنما يلزمها أن تشد الحفاظ الذي تضعه كل أنثى على محل الدم، لمنع تسربه للخارج. ثم تفعل سائر مناسك الحج إلا الطواف بالبيت؛ لأن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر عائشة رضي الله عنها أن تصنع ما يصنع الحاج غير الطواف بالبيت . وقال في حديث صحيح لأسماء بنت عميس: «اصنعي ما يصنع الحاج غير ألا تطوفي بالبيت».وعلى هذا فلا تلزم بطواف القدوم ولا بقضائه؛ لأنه سنة عند الجمهور."

(‌‌الباب الخامس: الحج والعمرة، ‌‌الفصل الأول: أحكام الحج والعمرة، ‌‌المبحث الخامس -‌‌ أركان الحج والعمرة، ‌‌المطلب الثاني ـ الطواف، ‌‌حج المرأة الحائض، ج:3، ص:2220،2223، ط:دارالفكر)

الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ میں ہے:

"ثم إن المرأة متى شربت دواء وارتفع حيضها فإنه يحكم لها بالطهارة."

(الحيض، أحكام عامة، ‌‌‌إنزال ورفع ‌الحيض بالدواء، ج:18، ص:326، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100470

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں