سفر حج میں جانے سے پہلے دعاء کرانا کیسا ہے؟
سفر ِحج پر جانے سے پہلے لوگوں سے اس سعادت کے حصول کےلیے دعا کرانا جائز ہے،اسی طرح کسی اور بندے کا سفر حج پر جانے والے سے دعا کرانا اور دعا کا کہنا بھی جائز ہے، بشرطیکہ اس کے لیے الگ سے مجلس کا انعقاد کر کے اس کو ضروری سمجھ نہ کیاجائے۔
صحیح مسلم میں ہے:
"عن صفوان (وهو ابن عبد الله بن صفوان) وكانت تحته الدرداء. قال:قدمت الشام. فأتيت أبا الدرداء في منزله فلم أجده. ووجدت أم الدرداء. فقالت: أتريد الحج، العام؟ فقلت: نعم. قالت: فادع الله لنا بخير. فإن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقول "دعوة المسلم لأخيه، بظهر الغيب، مستجابة. عند رأسه ملك موكل. كلما دعا لأخيه بخير، قال الملك الموكل به: آمين. ولك بمثل "،قال: فخرجت إلى السوق فلقيت أبا الدرداء. فقال لي مثل ذلك. يرويه عن النبي صلى الله عليه وسلم."
(كتاب الذكر، والدعاء، باب فضل الدعاء للمسلمين بظهر الغيب، ج:8، ص:86، ط:دار الطباعة العامرة - تركيا)
ترجمہ: "صفوان (جو کہ عبد اللہ بن صفوان کے بیٹے تھے) بیان کرتے ہیں:میں شام (ملکِ شام) گیا۔ابو درداء کے گھر گیا مگر وہ گھر پر موجود نہ تھے،مجھے امّ درداء (ان کی بیوی) ملیں۔انہوں نے پوچھا:کیا تم اس سال حج کا ارادہ رکھتے ہو؟میں نے کہا: ہاں۔تو انہوں نے کہا: ہمارے لیے (بھی) اللہ تعالیٰ سے بھلائی کی دعا کرنا،کیونکہ نبی ﷺ فرمایا کرتے تھے:"مسلمان جب اپنے بھائی کے لیے غائبانہ دعا کرتا ہے، تو وہ قبول ہوتی ہے،اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے،جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے بھلائی کی دعا کرتا ہے، تو وہ فرشتہ کہتا ہے: آمین! اور تمہارے لیے بھی ویسا ہی ہو"۔صفوان کہتے ہیں: پھر میں بازار کی طرف گیا اور وہاں مجھے ابو درداء ملے۔انہوں نے بھی مجھ سے وہی بات کہی (جو ام درداء نے کہی تھی) اور اسے نبی ﷺ سے روایت کیا۔"
سنن ابن ماجہ میں ہے:
"عن سالم، عن ابن عمر عن عمر: أنه استأذن النبي صلى الله عليه وسلم في العمرة، فأذن له، وقال له: "يا أخي، أشركنا في شيء من دعائك، ولا تنسنا."
(أبواب المناسك، باب فضل دعاء الحاج،ج:4، ص:142، ط:دار إحياء الكتب العربية)
ترجمہ:" حضرت سالم، حضرت ابن عمر سے روایت کرتے ہیں، وہ اپنے والد حضرت عمرؓ سے روایت کرتے ہیں:حضرت عمرؓ نے نبی کریم ﷺ سے عمرہ کی اجازت طلب کی،تو آپ ﷺ نے انہیں اجازت دے دی اور فرمایا:"اے میرے بھائی! ہمیں بھی اپنی دعا میں شامل رکھنا، ہمیں نہ بھولنا۔"(یعنی ہمارے لیے بھی دعائے خیر کرنا)۔"
مسند احمد میں ہے:
"عن عبد الله بن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا لقيت الحاج فسلم عليه، وصافحه، ومره أن يستغفر لك، قبل أن يدخل بيته، فإنه مغفور له."
(مسند عبد الله بن عمر، ج:9، ص:272، ط:مؤسسة الرسالة)
ترجمہ:"حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"جب تم کسی حاجی سے ملو تو اسے سلام کرو، اور اس سے مصافحہ (ہاتھ ملانا) کرو،اور اسے کہو کہ تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرے، اس سے پہلے کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہو،کیونکہ اس کی مغفرت ہو چکی ہوتی ہے۔"
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611102132
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن