عرض یہ ہے کہ مسجد کا ایک صحن ہے، بارش کی وجہ کبھی مسجد کے صحن میں پانی جمع ہوکر کھڑا ہوجاتا ہے، ایسی صورت میں اس صحن سے متصل پیچھے ایک کمرہ ہےجو کہ اذان خانہ ہے، اس میں بھی صف بنائی جاتی ہے، یعنی مسجد کے ہال کے بعد صحن ہے اور اس میں بارش کی وجہ سے صف نہیں بنائی جاتی، بلکہ اسے خالی چھوڑ کر اذان خانہ میں صف بنائی جاتی ہے، اس صورت میں مسجد اور اذان خانہ کے درمیان اتصال صفوف نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں کیا حکم ہے؟ کیا عذر کی وجہ سے اتصال صفوف کے بغیر نماز درست ہے یا نہیں؟اسی طرح جمعہ میں مجمع کی زیادتی کی وجہ سے بھی یہ کیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ اقتدا کے درست ہونے کے لیے امام اور مقتدی کے مکان کا حقیقتاً یا حکم متحد ہونا ضروری ہے اور چوں کہ مسجد کا صحن اور فناء مسجد( مصالح مسجد کی جگہ جیسے اذان خانہ وغیرہ) بھی مسجد کے حکم میں ہے، اس لیے یہ حقیقتاً ایک ہی مکان ہے اور اس میں اگر چہ صفیں متصل نہ ہوں تو بھی اقتدا درست ہوگی، تاہم بلا عذر صفیں خالی چھوڑنا مکروہِ تحریمی ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً اذان خانہ مسجد کے صحن کے با لکل متصل ہے، یعنی عين مسجد اور اذان خانہ كے مابين خارج مسجد كی اتنی جگہ نہ ہو جو دو صف كے بقدر يا اس سے زياده ہو، بلكہ صحنِ مسجد جو كہ عين مسجد ہے كے متصل مذكوره اذان خانہ ہو اور ایسی صورت میں بارش ہونے کی وجہ سے صحن میں پانی کھڑا ہوجائے تو صحن کو خالی رکھ کر اذان خانہ سے امام کی اقتدا درست ہے بشرطیکہ اس اذان خانہ میں مقتدیوں کو امام کی نقل وحرکت کا علم ہو خواہ آواز کے ذریعے ہو (آواز براہ راست امام کی یا مکبر کی ،بدون اسپیکر کی ہو)یا دیکھ کر ہو۔ جمعہ کی نماز میں مجمع کی زیادتی کی وجہ سے اذان خانہ میں نماز پڑھنے کا بھی یہی حکم ہے۔
المحیط البرہانی میں ہے:
"فناء المسجد له حكم المسجد حتى لو قام في فناء المسجد، واقتدى بالإمام صح اقتداؤه، وإن لم تكن الصفوف متصلة ولا المسجد ملأنا وإليه أشار محمد في باب صلاة الجمعة، فقال يصح الاقتداء في الطاقات بالكوفة، وإن لم تكن الصفوف متصلة فلا يصح في دار الصيارفة، إلا إذا كانت الصفوف متصلة؛ لأن الطاقات بالكوفة متصلة بالمسجد ليس بينها وبين المسجد طريق، فلا يشترط فيها اتصال الصفوف، فأما دار الصيارفة، فمنفصلة عن المسجد بينها وبين المسجد طريق، فيشترط فيها اتصال الصفوف."
(ّكتاب الصلاة، الفصل السادس، ج: 1، ص: 418، ط: دار الكتب العمية)
الدر المختار میں ہے:
"(ويمنع من الاقتداء)...(.. خلاء) أي فضاء (في الصحراء) أو في مسجد كبير جدا كمسجد القدس (يسع صفين) فأكثر......(والحائل لا يمنع) الاقتداء (إن لم يشتبه حال إمامه) بسماع أو رؤية ولو من باب مشبك يمنع الوصول في الأصح (ولم يختلف المكان) حقيقة كمسجد."
"(قوله يسع صفين) نعت لقوله خلاء، والتقييد بالصفين صرح به في الخلاصة والفيض والمبتغى. وفي الواقعات الحسامية وخزانة الفتاوى: وبه يفتي إسماعيل."
(کتاب الصلاة، باب الإمامة، ج: 1، ص: 584-586، ط: ايچ ايم سعيد)
فتاوی رحیمیہ میں ہے:
”صحت اقتداء کے لئے امام و مقتدی کے مکان کا متحد ہونا شرط ہے خواہ حقیقتا متحد ہو یا حکماً ۔ مسجد شتوی ( جماعت خانه) او رمسجد صیفی (صحن داخل مسجد) اور فناء مسجد ( مصالح مسجد کی کھلی جگہ) یہ تمام جگہ باب اقتداء میں متحد ہے، بناء اعلیہ امام اور مقتدی اور دوسری صفوں کے درمیان دو صفوں سے زائد خلاء اور فاصلہ ہو تب بھی مانع اقتدا نہیں ہے یعنی زیادہ فاصلہ اور خلا ہوتے ہوئے بھی اقتداء صحیح ہو جاتی ہے لیکن امام و مقتدی کی جگہ کے متحد نہ رہنے کے اور اقتداء کے صحیح نہ ہونے کے چند وجوہات اور بھی ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ امام و مقتدی کے درمیان ایسی دیوار حائل ہو جس کی وجہ سے امام کی نقل و حرکت مقتدی پر مشتبہ ہے ولا حائط يتشبه معه بانتقال الامام. يعني نہ تو کوئی دیوار حائل ہو جس کی وجہ سے امام کی نقل و حرکت مقتدی پر مشتبہ رہے ۔ “
(کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ والجماعۃ، ج: 4، ص: 204، ط: دار الاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101302
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن