بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

سفید پگڑی کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثبوت اور حکم


سوال

کیا کوئی روایت ایسی ہے جس میں سفید پگڑی کی صراحت موجود ہو فعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے؟ جس طرح کالی پگڑی کی صراحت موجود ہے روایات میں؟ اگر ہو تو مجھے حوالہ بتا دیں۔

 

جواب

واضح رہےکہ ذخیرۂ احادیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے  لباس  سے  متعلق دو قسم کی روایات موجود ہیں ایک عمومی لباس سے متعلق ہیں کہ جو   قمیص ،شلوار،  اور پگڑی وغیرہ سب کو شامل ہوتا ہے،   اورایک  خصوصی پگڑی سے متعلق روایا ت ہیں، عمومی روایات کا  مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ نے اپنے  عام معمول  میں  کس طرح اور کس رنگ کے  لباس پہنتے، اور  پسند فرماتے تھے؟ اور کس رنگ کی  پگڑی استعمال فرماتے تھے؟ اس کے بارے میں صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفید لباس زیب تن فرماتے تھے،  اور لوگوں کو بھی سفید لباس کی ترغیب دیتے تھے ، چناں چہ  ”مسند احمد ، سنن ابی داؤد ، سنن الترمذی ، صحیح ابن حبان، اور معجم الکبیر “ میں اس بارے میں صحیح روایت موجود ہے:

"البسوا من ثيابكم البياض، ‌فإنها ‌من ‌خير ‌ثيابكم، وكفنوا فيها موتاكم."

یعنی تم سفید لباس پہن لیا کرو؛  کیوں کہ یہ  تمہارے بہترین لباس میں سے ہے، اور اپنے مردوں کو بھی سفید لباس میں  کفن دیا کرو۔

 اس کے علاوہ بھی روایات ہیں، لیکن خصوصی سفید پگڑی سے متعلق ہمیں ایک صحیح روایت مستدرک حاکم کے حوالے سے ملی ہے جو ذیل میں باحوالہ مع ترجمہ کے ذکر کی جاتی ہے، جس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے کے عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عام معمول میں سفید پگڑی کا اہتمام کیا ہے اور پسند فرمایا ہے، چناں چہ مستدرک حاکم کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا کالا عمامہ اتار کر سفید عمامہ پہنا دیا اور فرمایا کہ اس طرح عمامہ آپ سے اچھا لگتا ہے۔

یاد رہے کہ مذکورہ روایت مستدرک حاکم نے صحیح قرار دی ہے اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی امام حاکم کی تصحیح کی موافقت کی ہے۔ تاہم خاص طور پر سفید عمامہ سے متعلق روایات بہت کم اور اکثر ضعیف  ہیں،  اس کی وجہ محدثین نے یہ بیان کی ہے کہ سفید عمامہ چوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول تھا، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دل دماغ میں اس کا رنگ بیٹھ گیا تھا ،اس لیے اس کا تذکرہ خصوصیت کے ساتھ روایات میں نہیں ہے، جیسے دیگر بہت سے دینی مسائل تواتر عملی کے ذریعے چلتے ہوئے آرہے ہیں ، لیکن ان کا قوی روایات میں تذکرہ نہیں ہے، اور کالا عمامہ چوں کہ خاص اوقات اور خاص وقائع میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے استعمال کیا ہے جیسے فتح مکہ کے موقع پر یا اس کے علاوہ جگہوں میں تو عام معمول سے ہٹ کر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے استعمال کیا تو صحابہ کرام سے بھی اس کا تذکرہ خصوصیت کے ساتھ روایات میں ملتا ہے۔

سفید پگڑی سے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل صراحت کے ساتھ صحیح روایت میں موجود ہے، جو مستدرک حاکم کے حوالہ سے ذیل میں ذکر کی جاتی ہے۔

"المستدرك للحاكم" میں ہے: 

"حدثنا علي بن حمشاذ العدل، ثنا أبو الجماهر محمد بن عثمان الدمشقي، حدثني الهيثم بن حميد، أخبرني أبو معبد حفص بن غيلان، عن عطاء بن أبي رباح، قال: كنت مع عبد الله بن عمر فأتاه فتى يسأله عن إسدال العمامة، فقال ابن عمر: سأخبرك عن ذلك بعلم إن شاء الله تعالى ... ثم أمر عبد الرحمن بن عوف يتجهز لسرية بعثه عليها، وأصبح عبد الرحمن قد اعتم بعمامة من كرابيس سوداء، فأدناه النبي صلى الله عليه وسلم ثم نقضه وعممه بعمامة بيضاء، وأرسل من خلفه أربع أصابع أو نحو ذلك وقال: «هكذا يا ابن عوف اعتم فإنه أعرب وأحسن."

"هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه، (وصححه ووافقه الذهبي أيضًا)

ترجمہ: ”حضرت عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں میں حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  کی خدمت میں تھا، آپ کے پاس ایک نوجوان آیا، اس نے عمامے کا شملہ لٹکانے کے بارے میں مسئلہ پوچھا ، حضرت عبداللہ بن عمرنے فرمایا: میں تجھے بعد میں اس کا علمی جواب دوں گا ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ  کو حکم دیا کہ وہ جہاد کی تیاری کریں، ان کو اس جنگی مہم کا سپہ سالار بنایا ، اگلے دن صبح حضرت عبدالرحمن بن عوف دریای سیاہ رنگ کا عمامہ پہن کر تیار ہو گئے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کو اپنے قریب بلایا، ان کا کالا عمامہ اتارا اور  ان کے سر پر سفید عمامہ باندھ دیا ، اور پچھلی جانب چار نگلیوں کے برابر یا اس کے قریب قریب مقدار میں شملہ لڑکا یا ،  پھر فرمایا: اے ابن عوف! اس طرح عمامہ باندھ لیا کریں، کیونکہ یہ اچھا لگتا ہے۔“

(المستدرك على الصحيحين، كتاب الفتن، حديث أبي عوانة، 4/ 582، ط: دار الكتب العلمية)

"سنن الترمذي" میں ہے: 

"حدثنا قتيبة قال: حدثنا بشر بن المفضل، عن عبد الله بن عثمان بن خثيم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "البسوا من ثيابكم البياض، ‌فإنها ‌من ‌خير ‌ثيابكم، وكفنوا فيها موتاكم."

"حديث ابن عباس حديث حسن صحيح."

ترجمہ: ”حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سفید کپڑے پہن لیا کرو؛  کیوں کہ یہ  تمہارے بہترین لباس میں سے ہے، اور اپنے مردوں کو بھی سفید لباس میں  کفن دیا کرو“

(سنن الترمذي، أبواب الجنائز، باب ما يستحب من الأكفان، 3/ 310، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے: 

"حدثنا أبو بكر قال: حدثنا سليمان بن حرب قال: حدثنا جرير بن حازم عن يعلى بن حكيم عن سليمان بن أبي عبد اللَّه قال: أدركت المهاجرين الأولين ‌يعتمون ‌بعمائم ‌كرابيس: ‌سود ‌وبيض ‌وحمر وخضر وصفر، يضع (أحدهم) العمامة على رأسه ويضع القلنسوة فوقها، ثم يدير العمامة هكذا -يعني على كوره- لا يخرجها من تحت ذقنه."

(مصنف ابن أبي شيبة، كتاب اللباس، من كان يعتم بكور واحد، 14/ 29، ط:دار كنوز إشبيليا، الرياض)

فيه أيضا:

"حدثنا أبو بكر قال: حدثنا وكيع قال: حدثنا الحسن بن صالح عن أبيه قال: رأيت على الشعبي عمامة بيضاء قد أرخى طرفها ولم يرسله."

(مصنف ابن أبي شيبة، كتاب اللباس، في: لبس العمائم البيض، 14/ 26، ط: دار كنوز إشبيليا، الرياض)

وفيه أيضا:

"حدثنا أبو بكر (قال: حدثنا وكيع) قال: (حدثنا) إسماعيل بن عبد الملك قال: رأيت على سعيد بن جبير عمامة بيضاء."

(مصنف ابن أبي شيبة، كتاب اللباس، في: لبس العمائم البيض، 14/ 26، ط: دار كنوز إشبيليا، الرياض)

مرقات المفاتیح میں ہے: 

"وفي الجملة جاز لبس السواد في العمامة وغيرها وأن الأفضل البياض نظرا إلى أكثر أحواله عليه الصلاة والسلام فعلا وأمرا."

(مرقاة المفاتيح، كتاب المناسك، باب حرم مكة، 5/ 1866، ط: دار الفكر)

"الدعامة في أحكام سنة العمامة"  میں ہے: 

"أن المتبادر من كلامهم ومن إيثاره صلى الله عليه وسلم البياض على غيره في غالب أحواله لبسه لها في الغالب لا سيما في الجمع والأعياد والمحافل وكأن هذا هو سر عدم اعتناءهم بإشاعة ذلك وإشهار ذكره لأنه إنما يعتنى كثيرًا بالأشياء النادرة المخالفة للمادة وأما الأمور الكثيرة الشهيرة الموافقة للعادة فلا يحتاج إلى إشاعتها والتنصيص عليها؛ لأن ذلك من باب الأخبار بما هو معلوم." ثم وجدت العلامة الصبان في كتابه إسعاف الراغبين في سيرة المصطفي وفضائل أهل بيته الطاهرين قال ما نصه: "ولبس يعني النبي صلى الله عليه وسلم العمامة البيضاء، والسوداء، والصفراء، والأكثر البيضاء هـ. والله أعلم."

(الدعامة في أحكام سنة العمامة، فصل في لبسه عليه الصلاة والسلام بعمامة البيضاء، ص: 85، ط: طبعت في مطبعة الفيجاء، شام)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603102524

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں