بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سفید بالوں پر مہندی لگانے کا حکم


سوال

 اگر ڈاڑھی یا سر کے بال سفید ہو جائیں ،تو کیا انہیں نیچرل حنا مہندی لگانا سنت ہے؟ مزید یہ کہ کیا مہندی لگانے کے لیے عمر کی کوئی شرط تو نہیں؟

جواب

مرد کے لیے سر اور ڈاڑھی کے بال سفید ہوجانے کی صورت میں سیاہ رنگ کے علاوہ مہندی کا خضاب لگانے کو فقہاءِ کرام  نے  سنت  لکھا  ہے،البتہ خالص کالے رنگ کاخضاب لگاناجائز نہیں  ہے، احادیثِ  مبارکہ میں اس کی ممانعت اور سخت وعیدآئی ہے،  صرف حالتِ  جہاد میں دشمن کو مرعوب رکھنے اور اس کے  سامنے  طاقت کے اظہار کے لیے کالا خضاب استعمال کرنے کی  اجازت دی گئی ہے،نیز ڈاڑھی  اور  سر کے بالوں کو  رنگنا  کسی بھی عمر میں جائز ہے۔

سنن ابو داود میں ہے:

"عن سعيد بن جبير عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : "يكون قوم ‌يخضبون في آخر الزمان بالسواد كحواصل الحمام، لا يريحون رائحة الجنة."

(اول کتاب الترجل،باب ما جاء في خضاب السواد،ج:6،ص:272،رقم:4212،ط:دار الرسالة العالمية)

ترجمہ:ابوداودشریف کی روایت میں ہے: ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماارشادفرماتے ہیں: جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آخری زمانہ میں کچھ لوگ ہوں گے جوسیاہ خضاب لگائیں گے،جیسے کبوترکاسینہ،ان لوگوں کوجنت کی خوش بوبھی نصیب نہ ہوگی‘‘۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن جابر بن عبد الله، قال: أتي بأبي قحافة يوم فتح مكة ورأسه ولحيته كالثغامة بياضا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «غيروا هذا بشيء، واجتنبوا السواد."

(کتاب اللباس و الزینة، باب فی صبغ الشعر و تغییر الشیب ج:3،ص: 1663ط:دار احیاء التراث العربی)

"ترجمہ:حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ حضرت ابوقحافہ رضی اللہ عنہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ  اقدس میں  اس حال میں لائے گئےکہ ان کے سر اورداڑھی کے بال ثغامہ( ایک گھاس ہے جس کے پھل پھول سب سفید ہوتے ہیں )  کی طرح سفید ہوچکے تھے، تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اس (سفیدی) کو کسی چیز(یعنی  کسی رنگ) سے بدل ڈالو، البتہ(خالص)سیاہ رنگ سے پرہیز کرو۔"

فتاوی شامی میں ہے:

"يستحب للرجل خضاب شعره ولحيته ولو في غير حرب في الأصح، والأصح أنه عليه الصلاة والسلام لم يفعله، ويكره بالسواد، وقيل لا مجمع الفتاوى والكل من منح المصنف..

(قوله خضاب شعره ولحيته) لا يديه ورجليه فإنه مكروه للتشبه بالنساء (قوله والأصح أنه عليه الصلاة والسلام لم يفعله) لأنه لم يحتج إليه، لأنه توفي ولم يبلغ شيبه عشرين شعرة في رأسه ولحيته، بل كان سبع عشرة كما في البخاري وغيره. وورد: أن أبا بكر رضي الله عنه خضب بالحناء والكتم مدني."

(کتاب الحظر والاباحة،‌‌فصل في البيع ،ج:6،ص:422،ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"اتفق المشايخ رحمهم الله تعالى أن الخضاب في حق الرجال بالحمرة سنة، و أنه من سيماء المسلمين و علاماتهم، و أما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلك من الغزاة؛ ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود منه، اتفق عليه المشايخ رحمهم الله تعالى. و من فعل ذلك ليزين نفسه للنساء و ليحبب نفسه إليهن فذلك مكروه، وعليه عامة المشايخ."

(کتاب الکراہیة،الباب العشرون في الزينة واتخاذ الخادم للخدمة،ج:5،ص:359،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505100921

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں