بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

صف سیدھی کرنے کا طریقہ


سوال

نماز میں صف کیسی ہونی چاہیے ؟آیا پاؤں سے پاؤں یا کندھے سے کندھا ملانا چاہیے ؟

جواب

واضح رہےکہ اصل مقصود صف کا سیدھا کرنااور برابر کرنا  ہے اور اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ تمام نمازی ٹخنے اور ایڑیاں پیچھے سے برابر کریں اور  کندھا کندھے کے برابر سیدھ میں کرلیں  ۔

وفي حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح:  

"فيأمرهم الإمام بذلك وقال صلى الله عليه وسلم: "استووا تستوي قلوبكم وتماسوا تراحموا" وقال صلى الله عليه وسلم: "أقيموا الصفوف وحاذوا بين المناكب وسدوا الخلل ولينوا بأيدي إخوانكم.

قوله: "فيأمرهم الإمام بذلك" تفريع على الحديث الدال على طلب الموالاة واسم الإشارة راجع إليها ويأمرهم أيضا بأن يتراصوا ويسدوا الخلل ويستووا مناكبهم وصدورهم كما في الدر عن الشمني وفي الفتح ومن سنن الصف التراص فيه والمقاربة بين الصف والصف والاستواء فيه قوله: "استووا" أي في الصف قوله: "تستو" بحدف الياء جواب الأمر وهذا سر علمه الشارع صلى الله عليه وسلم كما علم أن اختلاف الصف يقتضي اختلاف القلوب قوله: "أقيموا الصفوف" أي عدلوهها قوله: "وحاذوا بين المناكب" ورد كأن أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه."

(ص: 306,ط: دار الكتب العلمية بيروت)

امداد الفتاوی میں ہے :

ـ’’اس باب میں مختلف الفاظ سے روایات آئی ہیں ،بخاری کے الفاظ تو سوال ہی میں مذکور ہیں اور سنن ابو داؤد میں نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ آئے ہیں :قال فرأیت الرجل یلزق منکبہ بمنکب صاحبہ و رکبتہ برکبة صاحبہ و کعبہ بکعبہ ۔ اور حضرت انس رضی  اللہ عنہ سے مرفوعا یہ الفاظ ہیں :قاربو بینہما و حاذوا بالاعناق ۔اور عبداللہ  بن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعا یہ الفاظ ہیں :حاذوا بالمناکب۔اور یہ امر یقنی ہے کہ ان سب عبارات کا معبر عنہ ایک ہی ہے ،اسی کو کہیں الزاق سے تعبیر کردیا،کہیں مقاربت سے کہیں محاذاۃ سے ،اس سے معلوم ہوا کہ محاذاۃ و مقاربت ہی کو الزاق  کہہ دیا ہے مبالغۃ فی المقاربۃ۔دوسرے اگر الزاق کے معنی حقیقی  لئے جاویں تو الزاق المناکب اور الزاق الکعب  اس صورت متعارفہ معتادہ میں مجتمع نہیں ہوسکتے کہ مصلی اپنے قدمین میں خوب انفراج رکھے ،کیونکہ اس میں الزاق الکعاب تو ہوگا لیکن الزاق  المناکب نہ ہوگا ،جیسا کہ ظاہر اور مشاہد ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ الزاق الکعب کو مقصود سمجھاجاوے اور الزاق المناکب کی رعایت نہ کی جاوے ،کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ الزاق المناکب اصل ہے اور الزاق الکعاب  غیر مقصود ۔تیسرے الزاق الکعاب کی جو صورت  بھی  لی جاوے الزاق الرکب کے ساتھ اس کے تحقیق کی کوئی صورت نہیں ،کیونکہ رکبہ بمعنی زانو کا الزاق دوسرے رکبہ سے جب ہوسکتاہے کہ دو شخص باہم متقابل اور متواجہ ہوں جیسا کہ ظاہر ہے ،البتہ محاذاۃ  رکب میں ہر حال میں ممکن ہے ان وجوہ سے ثابت ہوا کہ  جس الزاق کا دعوی کیا جاتا ہے ،حدیث  اس پر دلالت نہیں کرتی   بلکہ فرجات چھوڑنے کی ممانعت سے  اس کی نفی ہوتی ہے ۔واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم ۔‘‘

(ج:1 ص:326 ط:مکتبہ دار العلوم کراچی )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404100049

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں