بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صف میں اکیلے کھڑے شخص کی نماز کا حکم


سوال

اگر جماعت میں ایک صف مکمل ہوجاۓ اور دوسری میں صف میں پیچھے  صرف ایک شخص اکیلا کھڑا  ہو، تو  کیا اس کھڑے اکیلے شخص کی نماز ہو جاۓ گی؟

جواب

جماعت کی نماز کے دوران صف میں اکیلے نماز ادا کرنے سے حدیث میں منع کیا گیا ہے؛ لہٰذا اگلی صف مکمل ہوجانے کے بعد آنے والے نمازی کو  چاہیے کہ  اگر مزید نمازیوں کے آنے کی امید ہو تو دوسرے نمازی کے آنے کا انتظار  کرے،  لیکن اگر اور  نمازیوں کے آنے کی توقع نہ ہو، یا نمازی کے انتظار میں رکعت نکل جانے کا اندیشہ ہو تو  ایسی صورت میں اگلی  صف سے کسی ایسے شخص کو اپنے پیچھے کھینچ لے جس کے بارے میں امید ہو کہ وہ مسئلہ سے واقف ہوگا، اور اپنی نماز نہیں توڑے گا، البتہ اگر اگلی صف میں کوئی ایسا شخص نہ ہو تو اس صورت میں وہ اکیلے ہی  پچھلی صف میں کھڑے ہو کر جماعت میں شامل ہوجائے، بہر صورت ایسے شخص کی نماز ہوجائے گی، اور جماعت کے ثواب سے محروم نہ ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويكره للمنفرد أن يقوم في خلال صفوف الجماعة فيخالفهم في القيام والقعود وكذا للمقتدي أن يقوم خلف الصفوف وحده إذا وجد فرجة في الصفوف وإن لم يجد فرجة في الصفوف روى محمد بن شجاع وحسن بن زياد عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لايكره فإن جر أحداً من الصف إلى نفسه وقام معه فذلك أولى. كذا في المحيط وينبغي أن يكون عالماً حتى لاتفسد الصلاة على نفسه، كذا في خزانة الفتاوى."

(كتاب الصلاة، الباب السابع فيما يفسد الصلاة وما يكره فيها ، الفصل الثاني فيما يكره في الصلاة وما لا يكره،١ / ١٠٧، ط: دار الفكر)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے:

"وقدمنا كراهة القيام في صف خلف صف فيه فرجة للنهي، وكذا القيام منفردًا وإن لم يجد فرجةً بل يجذب أحدًا من الصف ذكره ابن الكمال، لكن قالوا: في زماننا تركه أولى، فلذا قال في البحر: يكره وحده إلا إذا لم يجد فرجةً.

(قوله: لكن قالوا إلخ) القائل صاحب القنية فإنه عزا إلى بعض الكتب أتى جماعة ولم يجد في الصف فرجةً، قيل: يقوم وحده ويعذر، وقيل: يجذب واحدًا من الصف إلى نفسه فيقف بجنبه. والأصح ما روى هشام عن محمد أنه ينتظر إلى الركوع، فإن جاء رجل وإلا جذب إليه رجلًا أو دخل في الصف، ثم قال في القنية: والقيام وحده أولى في زماننا لغلبة الجهل على العوام فإذا جره تفسد صلاته اهـ قال في الخزائن قلت: وينبغي التفويض إلى رأي المبتلى، فإن رأى من لايتأذى لدين أو صداقة زاحمه أو عالمًا جذبه وإلا انفرد. اهـ. قلت: وهو توفيق حسن اختاره ابن وهبان في شرح منظومته (قوله: فلذا قال إلخ) أي فلم يذكر الجذب؛ لما مر."

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ١ / ٦٤٧، ط: دار الفكر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200461

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں