بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صدقہ کا گوشت کھانے کا حکم


سوال

کیاصدقے کاگوشت کھاناجائز ہے جب کہ قریبی رشتے دار نےدیاہو؟

جواب

’’صدقہ‘‘ سے مراد اگر واجب صدقہ ہے تو جو لوگ صاحبِ  نصاب نہ ہوں اور ان کے لیے زکات لینا جائز ہو، ان کے لیے صدقہ (واجبہ) کا گوشت کھانا جائز ہے۔  اور ’’صدقہ نافلہ‘‘ (عام صدقہ) مراد ہو تو اس کا گوشت ہر شخص کھا سکتا ہے، خواہ وہ مال دار ہو یا صدقہ دینے والے کا قریبی رشتہ دار ہو۔  البتہ جو شخص کسی وجہ سے نفلی صدقہ نکال رہاہو تو اسے چاہیے کہ اپنے زیرِ کفالت افراد کو اس صدقہ کی چیز نہ کھلائے نہ خود کھائے، بلکہ ایسی صورت میں زیادہ بہتر یہ ہے کہ کسی مستحقِ زکات کو دے؛ تاکہ ثواب بھی زیادہ ہو۔

بصورتِ مسئولہ اگر نفلی صدقہ کا گوشت ہے، مثلاً: عقیقہ کا گوشت،یا عام خیرات کا گوشت تو  ایسےگوشت کا کھانا جائز ہے، اور اگر واجب صدقہ ہے، مثلاً نذر مانے ہوئے جانور کا گوشت  تو اس کا کھانا درست ہے، جب کہ آپ مستحق زکات ہوں، یعنی آپ کی ملکیت میں ضرورت اور استعمال سے زائد اتنامال یا سامان نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت تک پہنچتی ہو اور آپ سید/ عباسی نہ ہوں۔

فتاوی شامی میں ہے:

(قوله: ويأكل من لحم الأضحية إلخ) هذا في الأضحية الواجبة والسنة سواء إذا لم تكن واجبة بالنذر، وإن وجبت به فلا يأكل منها شيئا ولا يطعم غنيا سواء كان الناذر غنيا أو فقيرا لأن سبيلها التصدق وليس للمتصدق ذلك، ولو أكل فعليه قيمة ما أكل، زيلعي.
والحاصل أن التي لا يؤكل منها هي المنذورة ابتداء والتي وجب التصدق بعينها بعد أيام النحر والتي ضحى بها عن الميت بأمره على المختار كما قدمناه عن البزازية. والواجبة على الفقير بالشراء على أحد القولين المارين والذي ولدته الأضحية كما قدمناه عن الخانية والمشتركة بين سبعة نوى بعضهم بحصته القضاء عن الماضي كما قدمناه آنفا عن الخانية أيضا، فهذه كلها سبيلها التصدق على الفقير فاغتنم هذا التحرير.

(ردالمحتارعلی الدرالمختار،ج:6،ص:327،ط:ایچ ایم سعید)

شرى أضحيةً وأمر رجلًا بذبحها، فقال: تركت التسمية عمدًا لزمه قيمتها ليشتري الآمر بها أخرى ويضحي، ويتصدق ولا يأكل ای غنی.

(ردالمحتارعلی الدرالمختار،ج:6،ص:333،ط:ایچ ایم سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144111201468

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں