بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل کا صدقہ کی رقم خود استعمال کرنا


سوال

میرا بھائی  دبئی میں ڈیوٹی کرتا ہے اور ہر مہینے ،دویاتین مہینے بعد صدقے کی نیت سے روپے بھیجتا ہے کہ صدقہ کرواور میں طالب علم ہوں اور وہ روپیہ میں استعمال کرتا ہوں ۔کیا یہ روپیہ میں خود استعمال کرسکتا ہوں؟

جواب

واضح رہے کہ جس شخص کو صدقہ یا زکاۃ کی ادائیگی کے لیے وکیل بنایاجائے اس کے لیے صدقہ یا زکاۃ کا مال اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے، اگرچہ وہ وکیل زکاۃ کا مستحق ہو، اس  لیے کہ وکیل کے ہاتھ میں یہ مال امانت ہوتا ہے جسے مؤکل کی ہدایت کے مطابق صرف کرنا لازم ہوتاہے۔  البتہ اگر مؤکل نے وکیل کو مکمل اختیار دے دیا ہو اور کہہ دیا ہو کہ "جو چاہے کرو، جسے چاہے دو" اس صورت میں اگر وکیل زکاۃ کا مستحق ہو تو اپنے استعمال میں لا سکتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کا بھائی صدقہ کی نیت سےجو رقم بھیجتا ہے ، اور کہتا ہے کہ اس کو صدقہ کردو تو سائل کے لیے اس رقم کا ستعمال کرنا جائز نہیں  بلکہ صدقہ کرنا ہی لازم ہے۔البتہ اگر سائل کا بھائی انہیں مکمل اختیار دے دیں کہ آپ جس طرح چاہیں اس رقم کو صدقہ کرسکتے ہیں تو اس صورت میں سائل کے لیے اس رقم کو اپنے استعمال میں لازم جائز ہوگا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق :

"‌وللوكيل بدفع الزكاة أن يدفعها إلى ولد نفسه كبيرا كان أو صغيرا، وإلى امرأته إذا كانوا محاويج، ولا يجوز أن يمسك لنفسه شيئا اه ـ.

إلا إذا قال ضعها حيث شئت فله أن يمسكها لنفسه كذا في الولوالجية"۔

(کتاب الزکوٰۃ، شروط اداء الزکوٰۃ، ج:2،ص:227، ط: دارالکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعًا إلا إذا وكله الفقراء وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت.

(قوله: إذا وكله الفقراء)؛ لأنه كلما قبض شيئًا ملكوه وصار خالطًا مالهم بعضه ببعض ووقع زكاة عن الدافع".

(کتاب الزکوۃ،ج:2،ص:269، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102181

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں