بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صدقہ کے لیے الگ کی ہوئی رقم کو اپنے استعمال میں لانا یا رشتہ داروں پر خرچ کرنے کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص اپنی کمائی سے کچھ حصہ اللہ کے نام سے الگ کر دے تو کیا وہ رقم صرف غریب ،مسکین یا مستحق یا مسجد مدرسے میں  دے سکتے ہیں یا اپنے گھر والوں پر یا والدین پر یا بہن بھائیوں پر یا  ان کے بچوں پر بھی خرچ کی جا سکتی ہے؟ یا وہ پیسے گھر کے اخراجات میں بھی خرچ کیے  جا سکتے ہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کا اپنے مال سے کوئی مخصوص رقم اللہ کے نام سے الگ کردینے سے شرعا یہ مال مذکورہ شخص کی ملکیت سے نہیں نکلے گا بلکہ یہ الگ کرنا شرعا ایک ارادہ ہوگا کہ اس رقم کو اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے گا  لہذا جب یہ مال  مذکورہ شخص کی ملکیت میں ہی ہے، تو  اس کو جس طرح چاہے استعمال کرسکتا ہےغریب مسکینوں کو  صدقہ کرے ، مسجد میں استعمال کرے یا اپنے گھر والوں یا والدین پر استعمال کرے البتہ چونکہ مذکورہ  شخص اس مال کو اللہ کے نام پر الگ کرکے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا ارادہ کر چکا ہے تو   اب اس مال کو  کسی غریب مسکین کو صدقہ کرنا یا مسجد مدرسہ یا کسی کار خیر میں خرچ کرنا ہی زیادہ  مناسب اور اولی ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(الباب الثاني عشر في الصدقة) . الصدقة بمنزلة الهبة في المشاع وغير المشاع وحاجتها إلى القبض، إلا أنه لا رجوع في الصدقة إذا تمت ويستوي إن تصدق على غني أو فقير في أنه لا رجوع فيها ومن أصحابنا رحمهم الله تعالى من يقول الصدقة على الغني والهبة سواء، كذا في المحيط."

(کتاب الھبۃ باب ثانی عشر ج نمبر ۴ ص نمبر۴۰۶، دار الفکر)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"جب اصل تنخواہ میں سے ماہانہ کٹواتا ہے اور اس کو کسی نیک کام میں خرچ کرنے کی نیت ہے تو یہ زائد رقم ہی اپنے کام میں کیوں لاتا ہے اس کو بھی غرباء  پر صدقہ کردے۔"

(کتاب الزکوۃ باب  الصدقات النافلۃ ج نمبر ۹ ص نمبر  ۶۵۱، جامعہ  فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100348

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں