بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صدقہ کے مصرف کا بیان


سوال

صدقہ  کس کس پر ہوتا ہے؟ یعنی ہم کس کو صدقہ دے سکتے ہیں؟  اور  کس کو  نہیں  دے  سکتے  ہیں؟

جواب

 صدقہ کی تین قسمیں ہیں:

(1) فرض، جیسے زکات۔

(2) واجب، جیسے نذر، صدقہ، فطر وغیرہ۔

(3) نفلی صدقات، جیسے عام خیرات۔

زکات اور  صدقاتِ  واجبہ  (صدقہ فطر وغیرہ)  صرف مستحقِ زکات افراد کو ہی دی جاسکتے ہیں، شرعی اعتبار سے مستحقِ زکات افراد وہ ہیں جو  نہ بنی ہاشم (سید وں یا عباسیوں وغیرہ) میں سے ہوں اور نہ ہی ان کے پاس  ساڑھے سات تولہ سونا، یاساڑھے باون تولہ چاندی  ہو، نہ ہی ساڑھے باون تولہ چاندی کی موجودہ قیمت کے برابر نقد رقم یا مال تجارت  یا اس مالیت کے برابر ضرورت و استعمال سے زائد سامان موجود ہو۔

لہٰذا جس شخص کے پاس ضرورت سے زائد اتنا سامان یا مال موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی تک پہنچتی ہو وہ شرعاً مال دار ہے، اور مال دار کو زکات دینا جائز نہیں ہے۔

اسی طرح زکات و صدقات واجبہ اپنے اصول ( والدین، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ) اورفروع (بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی وغیرہ)کو بھی نہیں دی جاسکتی ہے۔

نیز زکات یا واجب صدقات کسی فقیر کو  کسی بھی چیز یا کام کے معاوضے کے بغیر مالک بناکر دینا بھی ضروری ہے،  لہٰذا تنخواہ میں زکات یا واجب صدقہ دینا جائز نہیں ہے، اسی طرح زکات اور واجب صدقات سے تعمیرات کرنا بھی درست نہیں  ہے، الا یہ کہ کسی فقیر کو مالک بنا دیا جائے اور وہ اپنی مرضی سے اس رقم سے تعمیرات کرے یا کروائے۔

  جب کہ نفلی صدقات کسی بھی خیر کے کام میں صرف کیے جاسکتے ہیں ، اس میں تملیک بھی شرط نہیں ہے اور مال دار اور اصول و فروع کو بھی نفلی صدقہ دیا جاسکتا ہے، بلکہ نفلی صدقہ میں افضل یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں پر خرچ کرے، جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ عمرو بن جموح  رضی اللہ عنہ  ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا کہ ہم کیا خرچ کریں اور کس پر خرچ کریں؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

{يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا تَفْعَلُواْ مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌ} 

یعنی  لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خیرات کریں اور صدقہ دیں؟ کہہ دیجیے  کہ جو مال بھی تم صرف کرنا چاہو ، سو وہ  ماں، باپ،  عزیزوں، یتیموں، مساکین اور مسافروں پر خرچ کرو، اور جو مال بھی تم خرچ کروگے اللہ تعالیٰ اس سے ضرور باخبر ہیں۔

مختصر تفسير البغوي المسمى بمعالم التنزيل (1/ 82):

"قوله تعالى:{يسألونك ماذا ينفقون}[البقرة: 215] «نزلت في عمرو بن الجموح وكان شيخا كبيرا ذا مال فقال: يا رسول الله بماذا نتصدق وعلى من ننفق؟ فأنزل الله تعالى:{يسألونك ماذا ينفقون}[البقرة: 215] »".

         فتاوی عالمگیری میں  ہے:

" لايجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار، والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين."

  (1/ 188،  کتاب الزکاة، الباب السابع فی المصارف، ط؛ رشیدیه)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 368):

’’(وصدقة الفطر كالزكاة في المصارف) وفي كل حال.

(قوله: في المصارف) أي المذكورة في آية الصدقات إلا العامل الغني فيما يظهر و لاتصح إلى من بينهما أولاد أو زوجية ولا إلى غني أو هاشمي ونحوهم ممن مر في باب المصرف، وقدمنا بيان الأفضل في المتصدق عليه.‘‘

بدائع الصنائع، ۲/48، ط: سعید:

"وأما صدقة التطوع فیجوز صرفها إلی الغنی لأنها تجري مجری الهبة". 

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144209200932

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں