بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صدقۃ الفطرمیں کس جگہ کا اعتبار ہے؟


سوال

مجھےابھی معلوم ہواکہ جوبیرونی ملک ہوتاہےاس پرفطرانہ اس ملک کےحساب سےہوتاہےاوراس کےنابالغ بچوں کابھی اسی حساب سےواجب ہوتاہےاگرچہ وہ والدکےساتھ نہ ہو،اب سوال یہ ہےکہ مجھے اس مسئلےکاپتہ نہیں تھامیں صرف اپنافطرانہ ادھرکےحساب سےدیتاتھا،لیکن بچوں کونہیں دیا،کیامیں اب پچھلےسالوں کابھی دوں گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل چوں کہ بیرون ملک مقیم ہےتواس کواسی ملک کےنرخ کےحساب سےاپنااوراپنےنابالغ بچوں کاصدقہ فطراداکرنالازم تھا،اگرسائل نے بالکل ادا ہی نہیں کیا ہو،تو اب اس کے ذمے اُسی وقت کے نرخ اور اسی جگہ (جہاں سائل مقیم ہے)  کا اعتبار کرتے ہوئے صدقہ فطر ادا کرنا لازم ہے،اوراگرسائل نے اپنے نابالغ بچوں کا صدقۃ الفطر دوسرے ملک کے اعتبار سے ادا کیا ہو توسائل کے ذمے دونوں  ملکوں (جہاں سائل نے صدقہ اداکیا ہے، اور جہاں وہ مقیم ہیں) کا اندازہ لگا کر جو کمی آ رہی ہے اس کو پورا کرنا لازم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"والمعتبر في الزكاة فقراء مكان المال، وفي الوصية مكان الموصي، وفي الفطرة مكان المؤدي عند محمد، وهو الأصح."

(کتاب الزکاۃ ،فرع فی مصرف الزکاۃ،ج:2،ص:355،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا يوم الأداء. وفي السوائم يوم الأداء إجماعا، وهو الأصح."

(کتاب الزکاۃ،باب زکاۃ الغنم،ج:2،ص:285،ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ثم المعتبر في الزكاة مكان المال حتى لو كان هو في بلد، وماله في بلد آخر يفرق في موضع المال، وفي صدقة الفطر يعتبر مكانه لا مكان أولاده الصغار وعبيده في الصحيح كذا في التبيين. وعليه الفتوى كذا في المضمرات۔۔۔وإن أخروها عن يوم الفطر لم تسقط، وكان عليهم إخراجها كذا في الهداية."

(کتاب الزکاۃ ،الباب السابع فی المصارف،فصل مایوضع فی بیت المال من الزکاۃ،ج:2،ص:190/ 192،ط:المطبعۃ الکبریٰ الامیریہ )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101421

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں