بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صدقۂ فطر کی ادائیگی میں ادا کرنے والے کی جگہ کا اعتبار ہوگا یا جس کی طرف سے ادا کیا جارہا ہے اس کی جگہ کا؟


سوال

بعض علماء فرماتے ہیں کہ جہاں والدرہتا ہے وہاں کے حساب سے صدقۂ فطر دینا لازم ہےاوربعض علماء فرماتے ہیں کہ جہاں بچے رہتے ہیں وہاں کے حساب سے دینا لازم ہے،مثلاً: والد امریکہ یا سعودی میں رہتا ہے اور بچے پاکستان میں رہتے ہیں، تو بعض علماء فرماتے ہیں کہ امریکہ یا سعودی کے حساب سے دینا لا زم ہے اور بعض علماء فرماتے ہیں کہ پاکستان کے حساب سے دینا لازمی ہے، اگر چہ والد امریکہ یا سعودی میں رہتا ہو، اگر صدقۂ فطر پاکستان کے حساب سے اداکرنا صحیح نہیں ہے تو گزشتہ سالوں کے دیے ہوئے صدقۂ فطر کا اعادہ ضروری ہے یا نہیں؟

جواب

صدقۂ فطر کی ادائیگی میں  جہاں ادائیگی کرنے والا موجود ہے  وہاں کے نرخ کا اعتبار ہوگا، لہذا  اگر والد سعودی عرب یا امریکہ میں مقیم  ہیں تو  اُس  پر اپنا اور اپنے نابالغ بچوں کا صدقۂ فطر  سعودی عرب  یا امریکہ کے نرخ کے حساب سے دینا لازم ہے، تاہم بالغ بچوں کے صدقۂ فطر میں بچوں کی جگہ کا اعتبار ہوتا ہے۔

اگر والد سعودی عرب یا امریکہ میں رہتا ہو اور اس نے نابالغ بچوں کا صدقۂ فطر پاکستان کے حساب سے ادا کیا ہے تو گزشتہ سالوں کا حساب لگاکر دیکھیں، امریکہ یاسعودی عرب کے نرخ کے حساب جتنا کم دیا ہے وہی ادا کردیں، مکمل صدقۂ فطر کا اعادہ کرنا ضروری نہیں۔

فتاوٰی شامی میں ہے :

"والمعتبر في الزكاة فقراء مكان المال، وفي الوصية مكان الموصي، وفي الفطرة ‌مكان ‌المؤدي عند محمد، وهو الأصح وأن رءوسهم تبع لرأسه.

قال ابن عابدین: (قوله: مكان المؤدي) أي لا مكان الرأس الذي يؤدي عنه(قوله: وهو الأصح) بل صرح في النهاية والعناية بأنه ظاهر الرواية كما في الشرنبلالية وهو المذهب كما في البحر فكان أولى مما في الفتح من تصحيح قولهما باعتبار مكان المؤدى عنه."

(کتاب الزکاة، باب مصرف الزكاة والعشر، 355/2، ط: سعید)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے :

"ثم المعتبر في الزكاة مكان المال حتى لو كان هو في بلد، وماله في بلد آخر يفرق في موضع المال، وفي صدقة الفطر يعتبر مكانه لا مكان أولاده الصغار وعبيده في الصحيح كذا في التبيين. وعليه الفتوى كذا في المضمرات."

(کتاب الزکاة، الباب السابع في المصارف، 190/1، ط: دارالكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100551

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں