بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

صدقہ کی نیت سے جمع کردہ رقم اپنے گھروالوں پر خرچ کرنے کاحکم


سوال

پچھلے تین،چارسالوں سے میری عادت ہے،کہ میں حسبِ توفیق کچھ اپنے اور اپنے بچوں کے صدقے کی نیت سے ایک باکس میں ڈال دیتاہوں،جب کچھ پیسے جمع ہوجاتےہیں تو کسی ایسے مستحق کو دیتاہوں،جو منہ سے نہیں مانگتےہے،موجودہ معاشی حالات میں بے روزگاری کی وجہ سے مذکورہ رقم میں خود استعمال کرسکتاہوں؟

جواب

نفلی صدقہ جب تک دیا نہ جائے اس وقت تک محض رقم الگ کرنے سے مالک کی ملکیت سے وہ رقم نہیں نکلتی ،اس لیےآپ کےلیے صدقہ کی نیت سے جمع کردہ رقم اپنے استعمال میں لانےکی شرعاًکوئی ممانعت نہیں ہے۔

نیز اگر یہی اپنے گھر والوں کی ضروریات میں صدقہ کی نیت سے صرف کریں گے تو اس پر  بھی صدقہ ہی کا اجر ملے گا۔

شرح مسلم للنووی میں ہے:

''قوله صلى الله عليه وسلم (إن المسلم إذا أنفق على أهله نفقة يحتسبها كانت له صدقة) فيه بيان أن المراد بالصدقة والنفقة المطلقة في باقي الأحاديث إذا احتسبها ومعناه أراد بها وجه الله تعالى فلا يدخل فيه من أنفقها ذاهلا ولكن يدخل المحتسب وطريقه في الاحتساب أن يتذكر أنه يجب عليه الإنفاق على الزوجة وأطفال أولاده والمملوك وغيرهم ممن تجب نفقته على حسب أحوالهم واختلاف العلماء فيهم وأن غيرهم ممن ينفق عليه مندوب إلى الإنفاق عليهم فينفق بنية أداء ما أمر به وقد أمر بالإحسان إليهم والله أعلم.''

(کتاب الزکاۃ،‌‌باب فضل النفقة والصدقة على الأقربين والزوج والأولاد،ج:7،ص:88/ 89،ط:داراحیاء التراث)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101899

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں