بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صدقہ کیسے ادا کریں؟


سوال

نفلی یا فرض صدقہ اپنے ہاتھ سے دینا افضل ہے یا اپنے ماں باپ کے ہاتھ سے دلوانا افضل ہے ؟

جواب

احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں صدقہ  کرنا   کسی مصیبت سے محفوظ رہنے  اورآئی مصیبت کو دور کرنے  کا بہترین ذریعہ ہے، سننِ ترمذی میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صدقہ اللہ تعالی کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔ المعجم الاوسط میں ہے: چپکے سے صدقہ کرنا اللہ تعالی کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے۔

المعجم الاوسط  کی دوسری روایت میں ہے: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صدقہ دینے میں جلدی کرو، اس لیے کہ مصیبت اس سے آگے نہیں جاتی۔

سننِ ترمذی میں ہے: اللہ تعالی نے یحیی بن زکریا علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کو حکم دیں کہ وہ صدقہ دیں،  صدقہ کی مثال اس آدمی کی ہے جسے دشمن نے قید کیا ہو اور اس کا ہاتھ اس کی گردن سے باندھ دیا ہو؛ تاکہ اس کی گردن اڑادیں تو صدقہ آکر کہتا ہے کہ میں اسے کم یا زیادہ جتنا ہو، اس کے بدلے اسے چھڑاتا ہوں، تو اسے چھڑا کر لے جاتا ہے۔

معلوم ہوا کہ صدقہ کرنا متعدد خیروں کا مجموعہ ہے، اس لیے صدقہ کی کثرت شرعاً محبوب عمل ہے  اور صدقہ کے مذکورہ فضائل بہرصورت نصیب ہوں گے، خواہ آدمی اپنے ہاتھ سے صدقہ کرے، یا اپنے والدین کے ہاتھ سے صدقہ دلوائے، اس میں شرعاً کوئی تعیین نہیں ہے،  موقع محل اور نیت و اخلاص کے اعتبار سے صدقہ دینے والا خود اس کا فیصلہ  کرسکتا ہے؛ لہذا والدین کی طرف سے اگر صدقہ کرنا ہو تو خود  بھی کر سکتے ہیں، اور چاہیں تو والدین کے ہاتھ سے صدقہ کروادیں، بہر صورت اس کے ثمرات ان شاءاللہ حاصل ہوں گے، لیکن صدقہ میں اصولی طور پر  اخفا  پسندیدہ ہے، حتیٰ کہ دائیں ہاتھ سے صدقہ کرے تو بائیں کو پتا نہ چلے۔

سنن الترمذي (3 / 52):

"عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: إن الصدقة لتطفئ غضب الرب وتدفع عن ميته السوء".

المعجم الأوسط - (3 / 378):

"عن بهز بن أ حكيم عن أبيه عن جده عن النبي صلى الله عليه و سلم قال: إن صدقة السر تطفئ غضب الرب تبارك وتعالى".

سنن الترمذي (5 / 148):

"عن زيد بن سلام أن أبا سلام حدثه أن الحارث الأشعري حدثه: أن النبي صلى الله عليه و سلم قال: إن الله أمر يحيى بن زكريا بخمس كلمات أن يعمل بها ويأمر بني إسرائيل أن يعملوا بها وإنه كاد أن يبطئ بها، فقال عيسى: إن الله أمرك بخمس كلمات لتعمل بها وتأمر بني إسرائيل أن يعملوا بها، فإما أن تأمرهم و إما أنا آمرهم، فقال يحيى: أخشى إن سبقتني بها أن يخسف بي أو أعذب، فجمع الناس في بيت المقدس، فامتلأ المسجد وتعدوا على الشرف، فقال: إن الله أمرني بخمس كلمات أن أعمل بهن وآمركم أن تعملوا بهن، أولهن: أن تعبدوا الله ... وآمركم بالصدقة؛ فإن مثل ذلك كمثل رجل أسره العدو فأوثقوا يده إلى عنقه وقدموه ليضربوا عنقه، فقال: أنا أفديه منكم بالقليل والكثير، ففدى نفسه منهم".

المعجم الأوسط (6 / 9) ط:دار الحرمين:

"عن علي بن أبي طالب قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: باكروا بالصدقة فإن البلاء لايتخطاها".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201423

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں