بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صدقہ فطر کی رقم مسجد میں دینا


سوال

فطرانہ مسجد میں  دیا جا سکتا ہے؟  مسجد میں ضرورت ہے اور ایک وجہ ہے کہ کسی غریب مسلمان کا قریب نہ ہونا بھی ہے،  جس جگہ پر میں ہوں بظاہر کوئی غریب مسلمان نہیں؟

جواب

صدقہ الفطر کا مصرف وہ ہی ہے جو زکاۃ کا مصرف ہے اور زکاۃ کے مصارف سات ہیں :  فقیر، مسکین، عامل ، رقاب، غارم، فی سبیل اللہ اور ابن السبیل۔

فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ مال ہے، مگر اتنا نہیں کہ نصاب   کو  پہنچ جائے۔

مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو، یہاں تک کہ وہ کھانے اور بدن چھپانے کے لیے بھی لوگوں سے سوال کا محتاج ہو۔ 

عامل وہ ہے جسے اسلامی حکومت کے حاکم  نے زکاۃ اور عشر وصول کرنے کے لیے مقرر کیا ہو، اس کو بھی زکاۃ دی جا سکتی ہے۔

رِقاب سے مراد ہے غلامی سے گردن رہا کرانا۔

غارم سے مراد مَدیون (مقروض) ہے یعنی اس پر اتنا قرض ہو کہ اسے نکالنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے۔

فی سبیل اللہ کے معنی ہیں راہِ خدا میں خرچ کرنا، اس کی چند صورتیں ہیں مثلاً کوئی شخص محتاج ہے کہ جہاد میں جانا چاہتا ہے اور اس کے پاس رقم نہیں تو اس کو  زکاۃ دے سکتے ہیں۔

ابن السبیل سے مراد مسافر ہے، مسافر کے پاس اگر مال ختم ہو جائے تو اس کو بھی زکاۃ  کی رقم دی جا سکتی ہے اگرچہ اس کے پاس اس کے اپنے وطن میں مال موجود ہو۔

نوٹ: بعض اوقات فقیر اور مسکین کو ایک دوسرے پر اطلاق ہوجاتاہے۔

لہذا ان سب کو صدقہ الفطر دیا جا سکتا ہے،اگر  ان مصارف میں سے کوئی بھی مصرف سائل کے  علاقہ میں موجود نہیں ہے تو دیگر علاقوں میں  جو لوگ مستحق ہوں ان کو  دے دیں۔

مسجد میں صدقہ  فطر کی رقم نہیں دی جا سکتی۔ البتہ وہاں مدرسہ قائم ہو اور اس میں مستحق طلبہ موجود ہوں تو ان پر صرف کیا جاسکتاہے۔ یا مسجد کے خادم، مؤذن  یا امام اگر مستحقِ زکات ہوں تو تنخواہ کے علاوہ اس مد سے ان کا تعاون کیا جاسکتاہے۔

قرآن مجید میں ہے:

{ إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ } [التوبة: 60]

"فتاوی عالمگیری"  میں ہے:

" لايجوز أن يبنی بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولايجوز أن يكفن بها ميت، ولايقضى بها دين الميت، كذا في التبيين".

(1/ 188،  کتاب الزکاۃ، الباب السابع فی المصارف، ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201913

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں