بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صدقہ فطر کی ادائیگی کے لیے بیوی کو وکیل بنانا


سوال

ایک شخص سعودی عرب میں مزدوری کی نیت سے مقیم ہے اور اس کے بچے اور بیوی پاکستان میں ہے۔کیا صدقہ فطر بچوں کی ماں ادا کرسکتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ صدقہ فطر ہر مال دار صاحبِ  نصاب مرد اور عورت پر واجب ہے۔ مرد  پر اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے بھی صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے، جب کہ عورت پر صرف اپنی طرف سے صدقہ فطر دینا واجب ہے، نابالغ اولاد کا صدقہ فطر ماں پر واجب نہیں ہے۔ اسی طرح  شوہر پر بیوی کی طرف سے یا بیوی پر شوہر کی طرف سے صدقہ فطر دینا واجب نہیں ہے۔

صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ شخص اپنے اور اپنے نابالغ بچوں کے صدقہ فطر کی ادائیگی کے لیے اپنی بیوی کو بھی وکیل بنا سکتا ہے، اور بیوی اگر مال دار صاحبِ  نصاب ہو تو وہ اپنے صدقہ فطر کے ساتھ اپنے شوہر اور اس کی نابالغ اولاد کا صدقہ فطر بھی (شوہر کی اجازت سے) ادا کرسکتی ہے۔

نیز صدقہ  فطر میں چار چیزوں میں سے ایک چیز کی متعین مقدار ادا کرسکتے ہیں؛ "گندم" نصف صاع یعنی پونے دو کلو، "کھجور"، "جو"، اور "کشمش" ایک صاع یعنی تقریباً ساڑھے تین کلو۔ اور اگر چاہیں تو ان چاروں میں سے کسی ایک کی قیمت بھی دے سکتے ہیں، بلکہ قیمت دینا زیادہ بہتر ہے تاکہ مستحق شخص اپنی ضرورت کی چیز خرید سکے۔ اور قیمت کی ادائیگی میں اس شخص کے علاقہ کا اعتبار ہے جس پر صدقہ فطر کی ادائیگی واجب ہے، یعنی عید الفطر کے دن صبح صادق کے وقت وہ جس علاقہ میں موجود ہو اسی جگہ کی قیمت کے اعتبار سے صدقہ فطر کی ادائیگی کرنی ہوگی؛  لہٰذا مذکورہ شخص جو سعودی عرب میں ہے اس کا اور اس کی نابالغ اولاد کا صدقہ فطر وہاں کی قیمت کے اعتبار سے ہوگا اور بیوی اور بالغ اولاد کا صدقہ فطر پاکستان کی قیمت کے اعتبار سے ہوگا، چاہے جہاں پر بھی ادا کیا جائے۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209202378

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں