بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صدقہ فطر کا مستحق کون ہے؟ مستحق کا علم کیسے ہو؟


سوال

1.فطرانے کا مستحق کون ہے، نصاب کیا ہے؟

2. ایک بیوہ عورت ہے جس کے چار بچے ہیں ، ایک بیٹا جو 18-20 سال کا ہے، وہ 15 ہزار مہینہ کماتا ہے ۔ عورت کے گھر میں تمام ضروری اشیا موجود ہیں ۔ اور اس بیوہ کی ایک 22-23 سال کی بیوہ بیٹی بھی ساتھ رہتی ہے (جس کی2 سال کی بیٹی بھی ہے )۔ کیا یہ خاندان فطرانے کا حق دار ہے ؟ اگر پورا خاندان حق دار نہیں تو بیوہ عورت کی بیوہ بیٹی حق دار ہے ؟

3.ایک اور بیوہ عورت جس کے دو بیٹے 18-20 سال کے ہیں، لیکن ابھی روزگار سے وابستہ نہیں ۔ عورت اپنے والد کے گھر رہتی ہے اور بھائیوں کی کمائی پر گزارا کرتی ہے ۔والد کے گھر میں ضرورت کا سب کچھ موجود ہے ۔ کیا یہ عورت فطرانے کی حق دار ہے ؟

4. ایک اوربیوہ عورت جس کے پاس ضرورت کاسامان ہے. رہتی سسرال میں ہے (ساس سسر زندہ نہیں ، )لیکن اپنے دیور اور جیٹھ سے الگ - بظاہر اس کا چولہا لوگوں کی مدد سے ہے چلتا ہے  اور 12-14سال کے بچے سکول جاتے ہیں ۔ عورت کے بارے میں لوگ یہ گمان بھی رکھتے ہیں کے لوگوں سے ملنے والی مدد وہ اپنے والدین کو بھی دیتی ہے جو غریب ہیں اور دوسری جگہ رہتے ہیں۔ کیا یہ عورت فطرانے کی حق دار ہے ؟

5.فطرانہ دیتے وقت کس حد تک مستحق کے بارے میں تحقیق کرنی چاہیے، کیوں کہ بظاہر لوگوں کا گزر بسر ہو رہا ہوتا ہے لیکن لوگ پھر بھی انہیں زکات و فطرانہ دے رہے ہوتے ہیں۔ کیا ایسے زکات و فطرانہ ادا ہو جاتے ہیں؟ اس دور میں صحیح  مستحق ڈھونڈنا بہت مشکل ہے تو کیسے فطرانہ دیا جائے ؟ نیز   یہ بھی بتا دیں کہ اوپر درج کردہ لوگ زکات کے حق دار ہیں؟ 

جواب

1.شرعی اعتبار سے  صدقہ فطر اور زکاۃ کے مستحق  وہ افراد ہیں جو  نہ بنی ہاشم (سید وں یا عباسیوں وغیرہ) میں سے ہوں اور نہ ہی ان کے پاس ضرورت و استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود ہو جس کی مالیت نصاب (ساڑھے سات تولہ سونا، یاساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی موجودہ قیمت)  تک پہنچے۔ ایسے افراد کو زکات  اور صدقہ فطر دیاجاسکتا  ہے ۔

2.مذکورہ بیوہ عورت یااس کی بالغ اولاد میں سے جو جو افراد مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق استحقاق رکھتے ہوں وہ صدقہ فطر کے حق دار ہیں۔یعنی اگر مذکورہ بیوہ عورت کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا ، یا ساڑھے باون تولہ چاندی یاساڑھے باون تولہ چاندی کی موجودہ قیمت کے برابر نقد رقم یا اتنی مالیت کا ضرورت سے زائد سامان موجود نہیں تو یہ عورت صدقہ فطر کی حق دار ہے۔اسی طرح اس کی اولاد میں سے جو جو اس تفصیل کے مطابق غریب ہوں وہ بھی صدقہ فطر /زکاۃ کے حق دار ہیں ۔ 

3. مذکورہ عورت اگر مستحق ہے توصدقہ فطر لے سکتی ہے، مستحق ہونے کی تفصیل اوپر ذکر کی جاچکی ہے۔

4.یہ عورت بھی اگر ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا  اتنی مالیت کے برابر نقد رقم یا ساڑے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ضرورت سے زائد سامان نہیں رکھتی تو صدقہ فطر اور زکاۃ کی مستحق ہے۔

5.اگر زکات  یا صدقہ فطر دینے والے کا  غالب گمان یہ ہو کہ جسے زکات  یا صدقہ فطر کی رقم دی جارہی  ہے وہ مستحق ہے اور دینے والے کا دل مطمئن ہو تو ایسے شخص  کو زکات دینا جائز ہے، خواہ یہ اطمینان مستحق کی ظاہری حالت دیکھ کر ہو رہا ہو، یا اس کی باتوں سے غالب گمان ہوجائے،  یا مستحق کے خود بتانے سے یا اس کے زکات کا سوال کرنے سے غالب گمان حاصل ہوجائے، مزید تحقیق وتفتیش کی ضرورت نہیں ہے۔ 

الفتاوى الهندية - (5 / 181)
"ومصرف هذه الصدقة ما هو مصرف الزكاة كذا في الخلاصة ". فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144109202265

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں