بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

صدقہ فطر کا مصرف


سوال

 1- صدقہ فطر کی رقم کے مصارف کیا ہیں؟ کیا سادات یا غیر مسلموں کو صدقہ فطر دینے کی اجازت ہے؟ 2- صدقہ فطر کی ادائیگی صحیح ہونے کے لیے بھی کیا تملیک شرط ہے؟ اگر شرط ہے تو اس کی دلیل بھی تحریر فرمادیجیے! 3- کیا صدقہ فطر اور زکات کی وصولیابی پر آمدہ اخراجات صدقہ فطر کی رقم سے ادا کیے جاسکتے ہیں؟ مثلًا: صدقۂ فطر جمع کرنے والے عملے کا یومیہ، سفیر کی اجرت، صدقہ فطر اور زکات وصولی کی رسیدوں کی طباعت وغیرہ کے اخراجات، اور خاص اس مد کے حسابات کے خرچے وغیرہ۔ اگر مذکورہ اخراجات اس مد سے ادا نہیں کیے جاسکتے تو کن مدات سے یہ پورے کیے جاسکتے ہیں؟ 4- صدقہ فطر کے مصارف کے حوالے سے دیگر اہم احکام، جن کی رعایت ہمیں کرنی چاہیے، اس حوالے سے بھی راہ نمائی کی درخواست ہے۔

جواب

صدقہ فطر کامصرف وہی ہے جو زکوٰۃ کامصرف ہے۔یعنی جہاں جہاں زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، انہیں جگہوں میں صدقہ فطربھی دینا جائزہے،اور جہاں  جہاں زکوٰۃ دیناجائز نہیں ان جگہوں میں صدقہ فطردینابھی جائزنہیں۔لہٰذا صدقہ فطرکی رقم کے مستحق فقراء اورمساکین ہیں،فطرہ کی رقم سے مسجد،مدرسہ،ہسپتال،وغیرہ بناناجائزنہیں اور   جب زکوٰ ۃ اورصدقۃ الفطرکامصرف ایک ہی ہے تو سادات کوصدقۃ الفطرکی رقم دینا درست نہیں ہے۔    نیزمفتیٰ بہ ٖ قول کے مطابق غریب غیرمسلم لوگوں کو صدقہ فطردیناجائزنہیں ہے۔

فتح القديرمىں ہے:

(ولا يجوز أنه يدفع الزكاة إلى ذمي) «لقوله - عليه الصلاة والسلام - لمعاذ - رضي الله عنه - خذها من أغنيائهم وردها في فقرائهم» . قال (ويدفع ما سوى ذلك من الصدقة) وقال الشافعي - رحمه الله -: لا يدفع وهو رواية عن أبي يوسف - رحمه الله - اعتبارا بالزكاة. ولنا قوله - عليه الصلاة والسلام - «تصدقوا على أهل الأديان كلها» ولولا حديث معاذ - رضي الله تعالى عنه - لقلنا بالجواز في الزكاة۔

(باب من يجوز دفع الصدقۃ/ج:2/ص:267/ط:دارالفکر)

الدر مع الرد میں ہے:

(ولا) تدفع (إلى ذمي) لحديث معاذ (وجاز) دفع (غيرها وغير العشر) والخراج (إليه) أي الذمي ولو واجبا كنذر وكفارة وفطرة خلافا للثاني وبقوله يفتي حاوي القدسي وأما الحربي ولو مستأمنا فجميع الصدقات لا تجوز له اتفاقا بحر عن الغاية وغيرها۔

وكتب تحتہ:

قوله: خلافا للثاني) حيث قال إن دفع سائر الصدقات الواجبة إليه لا يجوز اعتبارا بالزكاة، وصرح في الهداية وغيرها بأن هذه رواية عن الثاني، وظاهره أن قوله المشهور كقولهما (قوله: وبقوله يفتي) الذي في حاشية الخير الرملي عن الحاوي وبقوله نأخذ.قلت: لكن كلام الهداية وغيرها يفيد ترجيح قولهما وعليه المتون۔

(باب مصرف الزكوٰۃ والعشر/ج:2/ص:352/ط:سعید)

وفيہ ايضاً:

(وصدقة الفطر كالزكاة في المصارف) وفي كل حال (إلا في) جواز (الدفع إلى الذمي) وعدم سقوطها بهلاك المال وقد مر۔

وکتب تحتہ:

(قوله: إلا في جواز الدفع إلى الذمي) في الخانية جاز ويكره. وعند الشافعي وإحدى الروايتين عن أبي يوسف لا يجوز تتارخانية وقدم عن الحاوي أن الفتوى على قول أبي يوسف۔

(باب صدقۃ الفطر/ج:2/ص:368/ط:سعید)

الفقہ الإسلامی وأدلتہ ميںہے:

اتفق الفقهاء علی أن مصرف زکوة الفطر هو مصارف الزکاة المفروضة ، لأن صدقة الفطر زکوة فکان مصرفها مصرف سائر الزکوة، ولأنها صدقة، فتدخل في عموم قوله تعالی : {إنما الصدقٰت للفقراء والمسٰکین} ولا یجوز دفعها إلی من لا یجوز دفع زکوة المال إلیه، ولا یجوز عند الجمهور دفعها إلی ذمي لأنها زکوة، فلم یجز دفعها إلی غیر المسلمین، کزکوة المال ، ولا خلاف في أن زکوة المال لا یجوز دفعها إلی غیر المسلمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وقال الحنفية: صدقة الفطر كالزكاة في المصارف وفي كل حال، إلا في جواز الدفع إلى الذمي مع الكراهة، وعدم سقوطها بهلاك المال، لكن الفتوى على قول أبي يوسف وهو عدم جواز صرفها للذمي، كزكاة الأموال، للحديث المتقدم في الزكاة: «صدقة تؤخذ من أغنيائهم وترد على فقرائهم»وعليه: تدفع صدقة الفطر بالاتفاق لكل حر مسلم فقير، غير هاشمي لشرفه وتنزهه عن أوساخ الناس۔

(المبحث الخامس، مصرفہا /ج؛3/ص:2048/ط:دارالفکر)

جیساکہ اوپرشامی کی عبارت میں گزرا،کہ صدقۃ الفطرزکوٰۃ کی طرح ہےمصارف میں اورتمام احوال میں ۔۔۔۔الخ تو  چوں کہ زکوٰۃ میں تملیک شرط ہے؛ لہٰذا صدقہ  فطر میں  بھی تملیک شرط ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و صدقة الفطر كالزكاة في المصارف) وفي كل حال (إلا في) جواز (الدفع إلى الذمي) وعدم سقوطها بهلاك المال وقد مر."

(باب صدقۃ الفطر/ج:2/ص:368/ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

ویشترط ان یکون الصرف تملیکا  لا اباحة کما مر(لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه) أما قال فی الشامة تحت قوله نحو مسجد کبناء القناطر والسقایات واصلاح الطرقات وکری الانهار والحج والجهاد و کل مالا تملیک فيه۔

(باب مصرف الزكوة/ج:2/ص:344/ط:سعید)

 صدقہ فطروزکوٰۃ کی وصولیابی پرجواخراجات آتےہیں وہ صدقہ فطراورزکوٰۃ کی رقم سے پورے کرناجائز نہیں،البتہ عطیات کی رقم سے مذکورہ اخراجات پورے کیے جاسکتے ہیں،نیز ضرورتِ شدیدہ کے وقت پہلے سے اگر زکوٰۃ کی رقم موجود ہو، تو اس میں  حیلہ تملیک کرنےکے بعد مذکورہ اخراجات میں استعمال کرنا درست ہے،لہٰذا ہرمدرسہ میں دومد قائم کرنی چاہییں،  ایک مدمیں صدقات کی رقم جمع ہو،دوسرے میں عطیات کی رقم، پھرہرایک مدکی رقم اس کے مصرف میں خرچ کرنی  چاہیے۔

مجمع الأنہر میں ہے:

وعلی الإمام أن یجعل لکل نوع بیتًا یخصمه ولا یخلط بعضه ببعض فإن لم یوجد في بعضها شیئ فللإمام أن یستقرض عليه من النوع الاٰخر ویصرفه إلی اهل ذلک، ثم إذا حصل من ذلک النوع شئ رده إلی المستقرض منه إلا أن یکون المصرف من الصدقات أو من خمس الغنائم علی اهل الخراج، وهم فقراء فإنه لا یرد فيه شیئًا، وکذا في غیره إذا صرفه إلی  المستحق، ویجب علی الإمام أن یتق اﷲ ویصرف إلی کل مستحق قدر حاجته من غیر زیادة۔

 (کتاب السیر والجہاد/ج:2ص:486/ط:، دار الکتب )

4۔اگر کسی مدرسے میں زکوٰۃ کی رقم بلاتملیک کھانے پینے اورتعمیرات، اساتذہ کی تنخواہوں میں صرف کی جاتی ہے، تو یہ شرعاً جائز نہیں ہے،لہٰذا تملیک سے پہلے صدقات واجبہ کی رقوم کواستعمال میں نہیں لانا چاہیے، یعنی مستحق طلبہ کو زکوۃ کی رقم دے دی جائے اور ہدایت کی جائے کہ ہرطالب علم اپنے تعلیمی اخراجات جمع کردے،اس کے بعد مذکورہ رقم مدرسہ کی تمام ضروریات مثلاً اساتذہ کی تنخواہوں، تعمیرات، طلبہ کے  کھانے وغیرہ میں خرچ کی جاسکتی ہے۔ 

فتاوى شامیمیں ہے:

لأن الحيلة أن يتصدق على الفقير ثم يأمره بفعل هذه الأشياء وهل له أن يخالف أمره؟ لم أره والظاهر نعم۔۔۔۔وفی الشامية (قوله ثم يأمره إلخ) ويكون له ثواب الزكاة وللفقير ثواب هذه القرب بحر وفي التعبير بثم إشارة إلى أنه لو أمره أولا لا يجزئ؛ لأنه يكون وكيلا عنه في ذلك وفيه نظر؛ لأن المعتبر نية الدافع ولذا جازت وإن سماها قرضا أو هبة في الأصح كما قدمناه فافهم.

(باب مصرف الزكوة/ج:2/ص:345/ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144302200032

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں