صدقہ فطر کب واجب ہوتا ہے؟
جو شخص اتنا مال دار ہو کہ ا س پر زکات واجب ہو، یا اس پر زکات واجب نہیں لیکن قرض اور ضروری اسباب اور استعمال کی اشیاء سے زائد اتنی قیمت کا مال یا اسباب اس کے پاس موجود ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت تک پہنچ جائے تو ایسے شخص پر صدقہ فطر واجب ہوجاتا ہے، یہ شخص اپنی اور اپنی نابالغ اولاد کی جانب سے صدقہ فطر ادا کرے گا، اور جس شخص کے پاس اتنا مال یا سامان موجود نہ ہو تو اس پر صدقہ فطر واجب نہیں ہوگا۔
اور یہ صدقہ فطر عیدالفطر کے دن جس وقت فجریعنی جب سحری کا وقت ختم ہوتاہے اسی وقت یہ صدقہ واجب ہوتاہے، جو عید کی نماز کے لیے جانے سے پہلے پہلے اسے ادا کرنا ضروری ہے، اگر عیدالفطر کی نماز سے پہلے ادا نہ کیا گیا تو بعد میں بھی ادا کرنا سنت ہے، تاہم عید الفطر کی نماز کے بعد تک تاخیر مکروہ ہے۔ غریب کی ضرورت کو مدنظر رکھ کر یہ صدقہ عیدالفطر سے پہلے رمضان المبارک میں بھی ادا کیا جاسکتاہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ذي نصاب فاضل عن حاجته الأصلية) كدينه وحوائج عياله (وإن لم يتم) كما مر (وبه) أي بهذا النصاب (تحرم الصدقة) كما مر، وتجب الأضحية ونفقة المحارم على الراجح (و) إنما لم يشترط النمو؛ لأن (وجوبها بقدرة ممكنة) هي ما يجب بمجرد التمكن من الفعل فلا يشترط بقاؤها لبقاء الوجوب؛ لأنها شرط محض."
(باب صدقة الفطر، ج:2 ، ص: 360، ط:ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144508102180
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن