صدقہ فطر کی قیمت میں سرکاری نرخ کا اعتبار کیا جائےیا مقامی قیمت کے اعتبار سے فطرہ اداء کیاجائےگا؟
واضح رہے کہ صدقۂ فطر میں اُسی جگہ کے رائج ،متوسط نرخ کا اعتبار ہوتا ہے جہاں پر صدقۂ فطرادا کرنے والا آدمی رہائش پذیر ہو،اگراس مقام پر سرکاری نرخ اس طرح حاوی اور رائج ہو کہ سائل اور دیگر عوام اسی نرخ کے حساب سے اشیاءِ خورد و نوش خریدتے ہوں تب تواسی سرکاری نرخ کے حساب سے فطرہ ادا کردیا جائے اور اگر سرکاری نرخ اتنا رائج نہیں ہے بلکہ بازار میں ایک الگ نرخ کے حساب سے سامان کی خرید و فروخت ہوتی ہو،اور سرکار کا جاری شدہ نرخ الگ ہو ،تب تو اسی بازاری قیمت کے حساب سے ہی صدقۂ فطر ادا کرنا ہوگا۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"إذا تعلقت الصدقة بذمة المؤدي اعتبر مكان المؤدي ولما تعلقت الزكاة بالمال اعتبر مكان المال."
(ص:75،ج:2،کتاب الصوم،فصل أنواع الصيام،ط:دار الکتب العلمیة)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"والمعتبر في الزكاة فقراء مكان المال، وفي الوصية مكان الموصي، وفي الفطرة مكان المؤدي عند محمد، وهو الأصح."
(ص:355،ج:2،کتاب الزکوۃ،باب العشر،ط:سعید)
فتح القدیر میں ہے:
"ولو كان في مفازة تعتبر قيمته في أقرب الأمصار إلى ذلك الموضع، وكذا في الفتاوى."
(ص:219،ج:2،کتاب الزکوۃ،فصل في العروض،ط:دار الفکر )
فتاویٰ محمودیہ میں ہے:
"کنٹرول سے سب کی ضروریات پوری نہیں ہوتی مجبوراً عام بازاری شرح سے خرید کر پوری کی جاتی ہے اس لئے عام بازاری نرخ سے صدقۂ فطر ادا کیا جائے گا۔"(٦٢٢/٩)
وفیہ ایضاً:
" اگر اپنے اخراجات بھی کنٹرول نرخ سے لیتا ہے تو صدقہ فطربھی اس نرخ سے ادا کرنا درست ہے۔"(٦٢٥/٩)
وفیہ ایضاً:
"جس نرخ سے اپنی ضروریات پوری کی جاتی ہیں اسی نرخ سے فطرہ اور فدیہ دیدیں، ظاہر ہے کہ آج کل کنٹرول سے عامتہً ضروریات پوری نہیں ہوتیں، اس لئے بازاری نرخ سے دیں۔"(٦٢٤/٩)
(باب صدقۃ الفطر ومصارفہا،ط:دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144409101009
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن