بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جس شخص کی کاشت کی زمین کی آمدن سے ضروریات زندگی پوری نہ ہوتو اُسے صدقہ فطر دینے کا حکم


سوال

 میرے ایک رشتہ دار ہیں، میاں ،بیوی اور ان کا ایک چار سال کا بیٹا ہے،ان کی آمدنی کا مستقل کوئی ذریعہ نہیں ہے، نہ ان کے پاس نقدی ہےاور نہ ہی سونا ہے، ان کا گزر بسر ایک گاۓ چند بکریاں اور اڑھائی ایکٹر بارانی زمین ہے، جس میں چنا کاشت ہوتا ہے ،بظاہر مفلسی کی زندگی گزار رہے ہیں، کیا ان کو صدقہ فطر دیا جا سکتا ہے؟

جواب

ازروئے شرع  جو لوگِ مستحق زکات ہوں انہیں صدقہ فطر بھی دیا جاسکتا ہے،اور زکات کے مستحق سے مراد وہ شخص جس کے پاس اس کی بنیادی ضرورت  و استعمال (یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن ، کپڑے وغیرہ)سے زائد،  نصاب کے بقدر  (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت  کے برابر) مال یا سامان موجود نہ ہو  اور وہ سید/ عباسی بھی نہ ہو، تو ایسے شخص کو زکات اور صدقہ فطر دونوں دیا جاسکتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے مذکورہ رشتہ داراگر واقعۃً  سونا ،چاندی،رقم  اور ضرورت سے زائد نصابِ زکات کے بقدر مال و متاع کے مالک نہیں ہیں،اور مذکورہ زمین کی آمدن سے ان کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں ،تو انہیں صدقہ فطر دیا جاسکتا ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وكذا لو كان له حوانيت أو دار ‌غلة تساوي ثلاثة آلاف درهم وغلتها لا تكفي لقوته وقوت عياله يجوز صرف الزكاة إليه في قول محمد - رحمه الله تعالى -، ولو كان له ضيعة تساوي ثلاثة آلاف، ولا تخرج ما يكفي له ولعياله اختلفوا فيه قال محمد بن مقاتل يجوز له أخذ الزكاة."

(كتاب الزكاة،الباب السابع في المصارف، ج:1، ص:189، ط:دارالفكر)

وفيه ايضا:

"ومصرف هذه الصدقة ما هو مصرف الزكاة كذا في الخلاصة."

(كتاب الزكاة، الباب الثامن في صدقة الفطر، ج:1، ص:194، ط:دارالفكر)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"مصرف زکوٰۃو صدقۃ الفطر اور قیمت چرم قربانی ایک ہے یعنی جن لوگوں کو زکوٰۃ دینا درست نہیں ہے ان کو صدقہ فطر اور قیمت چرم دنیا بھی درست نہیں ہے۔"

(کتاب الزکاۃ،ج:6، ص:213، ط:دارالاشاعت)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

" جس کی ملک میں کچھ نہ ہو یا مقدارِ نصاب سے کم ہو اس کو اصطلاحِ شرع میں فقیر و مسکین کہتے ہیں، وہ زکاۃ اور فطرہ کا مستحق ہے۔"

(کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر و مصارفہا،ج:9، ص:633، ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101527

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں