بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی خاص مقدار یا خاص وقت یا خاص جگہ ہر صدقہ کرنا


سوال

جیسا کہ یہ مسئلہ ہے کہ نفلی صدقہ کی شریعتِ مطہرہ میں کوئی حد نہیں ، جو چاہے، جب چاہے، جس طرح چاہے، جس دن چاہے دے سکتا ہے۔ لیکن بعض لوگوں کو دیکھا گیاہے کہ وہ صدقہ کی حد بندی کرتے ہیں، مثلاً یوں کہتے ہیں کہ اگر فلاں کام کروانا ہے تو فلاں چیز، اتنی اتنی مقدار میں، اتنے اتنےدن تک صدقہ کریں۔ اس طرح مختلف کاموں کے لیے مختلف طور پرصدقہ کی حد بندی کرتے ہیں۔ اب پوچھنا یہ ہےکہ کیا اس طرح کرنا ٹھیک ہے؟ برائے مہربانی جلدی جواب دیں، پہلے بھی کئی سوالات بھیج چکا ہوں، پر جواب نہیں ملا۔

جواب

واضح رہے کہ صدقہ کرنے کے قرآن و سنت میں بہت فضیلت آئی، کہ انسان حسب استطاعت وقتاً فوقتاً  اللہ کی رضا کی خاطر صدقہ کرتا رہے، لیکن شریعت میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کہ انسان کیا چیز اور کتنا صدقہ کرے، بلکہ اس کو صدقہ کرنے والے کی استطاعت، سہولت اور موقع مناسبت پر چھوڑا گیا ہے کہ جیسا موقع، ضرورت اور جیسی سہولت ہو انسان صدقہ کر سکتا ہے، اسی طرح بغرض علاج اگر کوئی معالج مخصوص مقدار صدقہ کرنے کو کہے اور اس مقدار کو ثواب نہ سمجھے، تو اس کی بھی گنجائش ہے۔لہذا شریعت کی طرف سے کچھ مخصوص احوال میں صدقے کی متعین صورتوں کے علاوہ ایسی کسی بھی صورت کو ثواب اور لازم سمجھنا شرعاً درست نہیں، البتہ اگر کسی نے نذر مانی ہو کہ میرا فلاں کام ہو گیا تو میں اتنے دن یا فلاں چیز وغیرہ وغیرہ صدقہ کروں گا تو یہ جائز ہے، یہ نذر ہے، اور  اس کو پورا کرنا ضروری ہوگا ۔

الفقه الإسلامي وأدلته میں ہے:

"يستحب أن يتصد ق بما تيسر، ولا يستقله، ولا يمتنع من الصدقة به لقلته وحقارته، فإن قليل الخير كثير عند الله تعالى، وما قبله الله تعالى وبارك فيه، فليس هو بقليل، قال الله تعالى: {فمن يعمل مثقال ذرة خيراً يره} [الزلزلة:7/ 99]، وفي الصحيحين عن عدي بن حاتم: «اتقوا النار ولو بشق تمرة» وفي الصحيحين أيضاً عن أبي هريرة: «يا نساء المسلمات لا تحقرِنَّ جارة أن تهدي لجارتها ولو فِرْسن شاة» والفرسن من البعير والشاة كالحافر من غيرهما. وروى النسائي وابن خزيمة وابن حبان عن أبي هريرة: «سَبَق درهم مئة ألف درهم، فقال رجل: وكيف ذاك يا رسول الله؟ قال: رجل له مال كثير أخذ من عُرْضه - جانبه- مئة ألف درهم تصدق بها، ورجل ليس له إلا درهمان، فأخذ أحدهما، فتصدق به»".

(‌‌‌‌الباب الرابع: الزكاة وأنواعها،الفصل الثالث: صدقة التطوع،ج:3،ص:2055،ط:دار الفكر سوريَّة دمشق)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله لزم الناذر) أي ‌لزمه ‌الوفاء ‌به ‌والمراد أنه يلزمه الوفاء بأصل القربة التي التزمها لا بكل وصف التزمه لأنه لو عين درهما أو فقيرا أو مكانا للتصدق أو للصلاة فالتعيين ليس بلازم بحر، وتحقيقه في الفتح."

(‌‌كتاب الأيمان،ج:3،ص:735،ط:دار الفكر بيروت)

وفیه ايضاً:

"«‌من ‌نذر ‌وسمى فعليه الوفاء بما سمى» (كصوم وصلاة وصدقة) ووقف (واعتكاف)".

(‌‌كتاب الأيمان،ج:3،ص:753،ط:دار الفكر بيروت)

البناية شرح الهدايةمیں ہے:

"وفي " الروضة ": لو قال مالي صدقة أو في سبيل الله ففيه أوجه: أحدها: وهو الأصح عند الغزالي وقطع القاضي حسين به أنه لغو لأنه لم يأت بصيغة الإلزام. والثاني: أنه كما لو قال علي أن أتصدق بمالي فيلزمه التصدق. والثالث: يصير ماله بهذا اللفظ صدقة. وذكر في " التتمة ": إن كان المفهوم من اللفظ في عرفهم معنى النذر أو نواه فهو لو قال: علي أن أتصدق بمالي أو أنفقه في سبيل الله وإلا فلغو. وأما إذا قال إن كلمت فلانا أو فعلت كذا فمالي صدقة فالذي قطع به الجمهور ونص عليه الشافعي أنه بمنزلة قوله فعلي أن أتصدق بمالي أو بجميع مالي أن طريق الوفاء أن يتصدق بجميع ماله. وإذا قال في سبيل الله يتصدق بجميع ماله على الفقراء، انتهى".

 (كتاب الهبة،باب ما يصح رجوعه في الهبة وما لا يصح،فصل في الصدقة،ج:10،ص:218،ط:دار الكتب العلمية بيروت لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102061

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں