مجھے سٹینڈرڈ چارٹرڈ کے "صادق کریڈٹ کارڈ" کے متعلق معلوم کرنا ہے۔ وہ دعوی کر رہے ہیں کہ شرعی تقاضوں کو پورا کرتا ہے اور انہوں نے کچھ علماء کے نام بھی لکھے ہیں جو کہ مشہور مدارس کے ہیں۔
کیا آپ شرائط و ضوابط کو دیکھ کر مجھے بتا سکتے ہیں کہ اس کا استعمال جائز ہے یا نہیں؟
بصورتِ مسئولہ اسٹینڈرڈ چارٹرڈ کی ویب سائٹپر مذکورہ کارڈ سے متعلق درج شدہ شرائط و ضوابط کے مطابق مذکورہ کارڈ بنوانا ہی جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس میں بھی سودی اور بعض ناجائز معاہدے کرنا لازم آتاہے، جب کارڈ بنانا ہی جائز نہیں ہے، تو اس کا استعمال بھی جائز نہیں ہوگا، نیز بعض صورتوں میں اگرچہ مذکورہ کارڈ سے حاصل شدہ سہولیات جواز کی حد میں آسکتی ہیں، لیکن جب معاہدے میں ناجائز امور شامل ہیں تو مذکورہ کارڈ بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
مذکورہ کارڈ سے متعلق جو شرائط و ضوابط اور شریعہ بورڈ کا جو فتوی ویب سائٹ پر موجود ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کریڈٹ کارڈ کی بنیاد مندرجہ ذیل امور پر ہے:
الف) اس کارڈ کی بنیاد اجرت کے نظریہ پر ہے، یعنی ایک طے شدہ فیس ماہانہ بنیاد پر گاہک سے لی جاتی ہے ، اس فیس کا تعلق گاہک پر واجب الادا رقم کی کمی یا زیادتی سے نہیں ہوتا۔
“The Islamic card will operate on Ujrah concept which is based on fee structure mwaning that only fixed fee will be charged to the customer.The card would not be levied with any floating percentage fee depending in the outstanding balance”
ماہانہ فیس دو سہولتوں کے بدلے میں ہوگی:
ب) تاریخِ ادائیگی تک اکم ازکم واجب الادا رقم اگر گاہک نے ادا نہیں کی تو پھر اس پر تاخیر کی فیس (صدقہ) لازم ہوگا اور یہ رقم بینک صدقہ کرے گی۔
اب تمہید کے طور پر چند باتیں جاننا ضروری ہیں:
(1) اس کارڈ کی بنیاد جو اجارہ کے نظریہ پر رکھی ہے تو اولًا یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا جن امور پر اجرت وصول کی جا رہی ہے ان پر اجرت وصول کرنا شرعًا جائز بھی ہے یا نہیں؟
یہاں اجرت دو امور کے بدلے لی جاتی ہے:
۱) کاڑد کا استعمال۔ ۲) مختلف منافع
۱)کریڈٹ كارڈ کے استعمال کے نتیجہ میں دو عقد بینک اور کارڈ کے حامل کے درمیان وجود میں آتے ہیں :
کارڈ کے استعمال پر اجرت لینے کا مطلب حوالہ اور قرض کے بدلے میں اجرت لینا ہے اور چوں کہ مآل کے اعتبار سے حوالہ بھی ایک قسم کا کارڈ ہولڈر پر قرض ہی ہوتا ہے تو گویا کہ یہ اجرت قرض کے بدلے میں ہے۔اور قرض کے بدلے اجرت لینا "کل قرض جر نفعاً" کی وجہ سے حرام اور نا جائز ہے اور یہ اجرت شرعًا ربا ہی ہوگی۔
۲)مختلف منافع جن کے بدلے میں اجرت لی جاتی ہے، ان میں سے بعض ایسے ہیں جن کے حصول کے بعد اجرت جائز ہوتی ہے اور بعض ایسے ہیں جن کے بدلے اجرت جائز ہی نہیں۔
تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
خلاصہ یہ ہوا کہ بعض سہولیات کے بدلہ اجرت لینا جائز ہے اور عقدِ اجارہ صحیح ہے اور بعض کے بدلہ اجرت ناجائز اور عقدِ اجارہ فاسد اور واجب الفسخ ہے۔یہ تفریق بھی اس وقت ہے جب کارڈ کا حامل سہولیات استعمال کرے، اگر وہ کسی ماہ سہولیات استعمال نہ کرے، تب بھی بینک اپنے قواعد کے مطابق اس سے اجرت وصول کرے گی تو پھر تو دونوں قسم کی سہولیات کے بدلہ یہ اجرت نا جائز ہی ہوگی؛ کیوں کہ منفعت کے حصول سے پہلے اجرت کسی صورت جائز نہیں ہوتی۔
(2) تاخیر کی وجہ سے جو فیس صدقہ کی صورت میں لی جاتی وہ نا جائز ہے؛ کیوں کہ مقروض پر صدقہ کا لزوم مالکی فقہ کا مرجوح قول ہے اور مذہبِ غیر پر فتوی اور وہ بھی ان کےمرجوح قول پر جو کہ کالعدم کے درجہ میں ہے جائز نہیں ۔
باقی جمہور علماء کی رائے مدیون مماطل کو قید کرنے کی ہے اور جمہور کی رائے کو ترک کر کے فقہ مالکی کے مرجوح قول پر عمل درست نہیں۔(تفصیل کے لیے مروجہ اسلامی بینکاری دیکھیں)
لہذا مذکورہ کریڈٹ کاڑد کا استعمال عام کریڈٹ کارڈ کی طرح نا جائز ہی ہوگا؛ کیوں کہ جن امور پر عقد اجارہ ہوا ہے ان میں سے صرف بعض سہولیات کے بدلے میں ہی عقد اجارہ درست ہے، باقی بعض دیگر سہولیات اور کارڈ کے استعمال کے بدلے میں اجارہ درست نہیں ہے، اور کارڈ کے استعمال کے بدلے میں اجرت تو ربا کے حکم میں ہے؛ لہذا مجموعی اعتبار سے اس کارڈ کا استعمال نا جائز ہوگا ۔اس پر مستزاد یہ کہ تاخیر پر جو صدقہ لازم کیا جاتا ہے وہ اس معاملہ کو ربوی معاملہ کے مزید قریب کر دیتا ہے۔
الفتاوى الهندية (3/ 295):
"أما التعريف فهو نقل الدين من ذمة إلى ذمة هو الصحيح، كذا في النهر الفائق."
(کتاب الحوالہ ،باب اول،ج نمبر ۳ ص نمبر ۲۹۵،دار الفکر)
الفتاوى الهندية (3/ 296):
"(فمنه براءة المحيل عن الدين)، كذا في محيط السرخسي."
(کتاب الحوالہ ،باب اول،ج نمبر ۳ ص نمبر ۲۹۶،دار الفکر)
الفتاوى الهندية (3/ 297):
"ومنها) ثبوت ولاية المطالبة للمحتال له على المحتال عليه بدين في ذمته (ومنها) ثبوت حق الملازمة للمحتال عليه على المحيل إذا لازمه المحتال له فكلما لازمه المحتال له فله أن يلازم المحيل ليخلصه عن ملازمة المحتال له، وإذا حبسه له أن يحبسه إذا كانت الحوالة بأمر المحيل ولم يكن على المحتال عليه دين مثله للمحيل."
(کتاب الحوالہ ،باب اول،ج نمبر ۳ ص نمبر ۲۹۷،دار الفکر)
الفتاوى الهندية (3/ 202):
"قال محمد - رحمه الله تعالى - في كتاب الصرف إن أبا حنيفة - رحمه الله تعالى - كان يكره كل قرض جر منفعة."
(کتاب البیوع باب تاسع عشر ج نمبر ۳ ص نمبر ۲۰۲،دار الفکر)
المحيط البرهاني في الفقه النعماني (7/ 489):
"وإذا استأجر الرجل دراهم أو دنانير أو حنطة أو شعيراً أو ما أشبه ذلك من الوزنيات أو الكيلات ليعمل منها كل شهر بدرهم لا تجوز، لأن الإجارة جوزت بخلاف القياس لمنفعة مقصودة من الأعيان، والمنفعة المقصودة من الكيلات والموزونات لا يمكن استيفاؤها إلا باستهلاكها فتكون هذه الإجارة معقودة على استهلاك العين، والإجارة لا تنعقد على استهلاك العين."
(کتاب الاجارہ ،فصل خامس عشر،ج نمبر ۷ ص نمبر ۴۸۹،دار الکتب العلمیہ)
الفتاوى الهندية (4/ 409):
"(أما تفسيرها شرعًا) فهي عقد على المنافع بعوض، كذا في الهداية."
(کتاب الاجارہ ج نمبر ۴ ص نمبر ۴۰۹،دار الفکر)
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4/ 174):
"وأما معنى الإجارة فالإجارة بيع المنفعة لغة ولهذا سماها أهل المدينة بيعا وأرادوا به بيع المنفعة ولهذا سمي البدل في هذا العقد أجرة."
(کتاب الاجارہ ج نمبر ۴ ص نمبر ۱۷۴،دار الکتب العلمیہ)
احکام القرآن للجصاص:196/2
"و في الآية دلالة علی أن الغریم متی امتنع من أداء الدین مع إمکان کان ظالمًا ...و إذا کان كذلك استحق العقوبة، وهيالحبس ...و اتفق الجمیع علی أنه لایستحقّ العقوبة بالضرب فوجب أن یکون حبسًا، لاتفاق الجمیع علی أنّ ما عداہمن العقوبات ساقط عنه في أحکام الدنیا ...الخ
(سورہ بقرہ اٰیت نمبر ۲۸۰ ج نمبر ۲ ص نمبر ۱۹۶دار احیاء التراث)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144205200775
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن