بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی کے موقع پر ہدیہ میں ملنے والی رقم واپس کرنا ضروری ہے یا نہیں؟


سوال

میری شادی پر سلامی اور نیندا جو مجھے ملا تھا،  میں نے ان میں سے کافی سارے لوگوں کی رقم ان کی شادیوں پر واپس کردی تھی،  لیکن ابھی بھی کافی لوگوں کی رقم باقی ہے،  میں ان لوگوں کی رقم ان کو واپس کرنا چاہتا ہوں،  مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ فوت ہو گئے ہیں،  اور کچھ لوگوں کے بچے ابھی چھوٹے ہیں،  ان کی شادیوں میں ابھی بہت دیر ہے، اور کچھ لوگ مہنگائی کی وجہ سے مختصر شادیاں کررہے ہیں اور شادی میں نہیں بلاتے،  اب اگر جاکر ان کو رقم واپس کی جائے، تو وہ اس کو اچھا نہیں سمجھیں گے،  اب اس رقم کو واپس کرنے کا کیا طریقہ ہو سکتا ہے؟  کیا ہر ایک کی رقم ان کے نام سے صدقہ کر دی جائے تو  میرے نام سے قرضہ اتر جائے گا؟  یا اس کو ادا کرنے کا کوئی اور طریقہ ہو سکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شادی کے موقع پر ہر خاندان اور علاقہ کا عرف مختلف ہوتا ہے، اگر کسی خاندان کا عرف یہ ہے کہ وہ شادی کے موقع پر لفافہ ہدیہ اور ہبہ کے طور پر دیتے ہوں، اس کو لکھتے نہ ہوں اور بعد میں اتنی ہی رقم ان کی شادی میں دینے کی نیت نہ ہو تو  یہ  ہدیہ ہے، اس کا لین دین جائز ہے، شرعاً کچھ حرج نہیں۔

اور اگر ایک دوسرے کو لفافوں کا دینا عوض اور بدل کے طور پر ہوتا ہو کہ جتنے فلاں نے دیے ہیں ان کی شادی میں اس سے زیادہ رقم واپس کرے گا، اور اسے نوٹ کیا جاتاہو تو یہ ”نیوتہ“  کی رسم کہلاتی ہے ، اور شرعًا یہ سودی قرض کے زمرے میں آجاتی  ہے اور سودی قرض لینا دینا ناجائز اور حرام ہے، اور اگر دینے والے اس نیت سے دیتے  ہیں کہ صاحبِ دعوت ان کی دعوت میں اتنی ہی رقم واپس کرے گا تو یہ قرض ہے، اور اسی قدر واپسی لازم ہے۔

قرآنِ  کریم  سے بھی  اس بری رسم کے ناجائز ہونے کا اشارہ ملتا ہے،  جیساکہ  سورہ روم میں ہے:

" اور جو چیز تم اس غرض سے دوگے کہ وہ لوگوں کے مال میں پہنچ کر زیادہ ہوجاوے تو یہ اللہ تعالی کے نزدیک نہیں بڑھتا۔" (بیان القرآن، سورہ روم، آیت: 39)

مفسرین نے نیوتہ کے لین دین کو بھی  اس آیت کا مصداق ٹھہراتے ہوئے سود ہونے کی بنا  پر ناجائز قرار دیا ہے، جیسے کہ معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:

"اس آیت میں ایک بری رسم کی اصلاح کی گئی ہے، جو عام خاندانوں اور اہل قرابت میں چلتی ہے۔  وہ یہ کہ عام طور پر کنبہ رشتہ کے لوگ جو کچھ دوسرے کو دیتے ہیں اس پرنظر رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے وقت میں کچھ دے گا بلکہ رسمی طور پر کچھ زیادہ دے گا، خصوصاً نکاح، شادی وغیرہ کی تقریبات میں جو کچھ دیا لیا جاتا ہے اس کی یہی حیثیت ہوتی ہے جس کو عرف میں "نوتہ"  کہتے ہیں۔ اور قرآن کریم نے اس زیادتی کو لفظ ربو سے تعبیر کرکے اس کی قباحت کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ ایک صورت سود کی سی ہوگئی۔"

(معارف القرآن، سورہ روم، ج:6، ص:750، ط:مکتبہ معاف القرآن کراچی)

لہذا صورتِ مسئولہ میں  اگر سائل کی  برادری میں نیوتہ کی رسم ہو،کہ   وہاں  شادی یا ولیمہ کے موقع پر جو کچھ دیا جاتا ہے اس کا باقاعدہ لینے والے اندراج بھی کرتے ہیں  یا   دینے والے کی  نیت واپس  ملنے کی ہو اور اس کا عرف بھی ہو   تو ایسی صورت میں  مذکورہ رقم کا لینا جائز نہیں ہوگا، اور اتنی رقم دینے والے کو یا اس کے ورثاء کو واپس کرنا ضروری ہوگا، لہذا  اس رسم کے تحت ملی ہوئی رقم میں جس قدر واپس کرچکاہےاس سے تو بری الذمہ ہوچکاہے، اور جو باقی ہے کوشش کرے کہ کسی نہ کسی صورت میں ملی ہوئی رقم واپس کردے باقی کچھ اگر رہ جائے اللہ معاف کرنے والاہے۔

 

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الفتاوى الخيرية سئل فيما يرسله الشخص إلى غيره في الأعراس ونحوها هل يكون حكمه حكم القرض فيلزمه الوفاء به أم لا؟ أجاب: إن كان العرف بأنهم يدفعونه على وجه البدل يلزم الوفاء به مثليا فبمثله، وإن قيميا فبقيمته وإن كان العرف خلاف ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة، ولا ينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه فلا رجوع فيه بعد الهلاك أو الاستهلاك، والأصل فيه أن المعروف عرفا كالمشروط شرطا اهـ.

قلت: والعرف في بلادنا مشترك نعم في بعض القرى يعدونه فرضا حتى إنهم في كل وليمة يحضرون الخطيب يكتب لهم ما يهدى فإذا جعل المهدي وليمة يراجع المهدى الدفتر فيهدي الأول إلى الثاني مثل ما أهدى إليه."

(‌‌كتاب الهبة، ج: 5، ص: 696، ط: سعید)

'درر الحكام فی شرح مجلۃ الأحكام' میں ہے:

"(الخاتمة) إن الأشياء التي ترسل في حفلات كهذه إذا كانت تدفع عرفا وعادة على وجه البدل فيلزم القابض مثلها إذا كانت من المثليات وقيمتها إذا كانت من القيميات وإذا كان لا يرسل بمقتضى العرف والعادة على وجه البدل بل ترسل على طريق الهبة والتبرع فحكمها كحكم الهبة ولا رجوع بعد الهلاك والاستهلاك والأصل في هذا الباب هو أن المعروف عرفا كالمشروط شرطا."

(الكتاب السابع الهبة، الباب الثاني في بيان أحكام الهبة، الهدايا التي تأتي في الختان أو الزفاف، ج: 2، ص: 481، المادة: 876، ط: دار الجيل)

'شرح المجلۃ لخالد الأتاسی' میں ہے:

"قلت: والعرف الغالب في حمص أنهم ینظرون في ذلک إلی إعطاء البدل، وعلیه فما یهدی في ذلک من أرز أو سکر أو سمن أو شاة حیة یکون قرضاً صحیحاً أو فاسداً، فیطالب به من عمل الولیمة من أب أو غیره، و مثل هذا ما یهدیه أقارب العروس من النساء و البنات بعد أسبوع من زفافها و یسمونه نقوطاً في بلادنا، فلا شک أنه قرض تستوفیه کل واحدة منهن إذا تزوجت أو زوجت بنتها في یوم أسبوعها."

(الكتاب السابع الهبة، الباب الثالث في بيان احكام الهبة، ج: 3، ص: 402، المادة: 876، ط: رشيدية)

 فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501102500

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں