بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی کے موقع پر دیے گئے گھر اور گاڑی کا حکم


سوال

بیو ی کو طلاق دیتے وقت  حق مہر دینا لازمی ہے  اور وہ چیزیں  جو لڑکی کو گفٹ کی ہوں،   سسرال والوں نے   وہ چیزیں بھی لڑکا واپس کرے گا   یا نہیں ؟ مثلا گاڑی  ، گھر ہو ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مہر  بیوی کا حق ہے ، جو شوہر کے ذمےبیوی کو دینا لازم  ہے قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں خوش دلی سے عورتوں کے مہر اداکرنے کا حکم دیاگیاہے۔

اور  سسرال والوں نے گاڑی اور گھر وغیرہ جو گفٹ  کے طور پر دیا تھا  وہ بھی لڑکی کی ملکیت ہیں وہ تما م چیزیں  لڑکی کو ملیں گی لڑکے پر ضروری ہے کہ وہ تمام چیزیں مطلقہ بیوی کو حوالہ  کر دے ۔

چنانچہ قرآن کریم میں ارشادِباری تعالیٰ ہے:

"وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ."

"اوردے دو عورتوں کواُن کے مہرخوشی سے "۔(النساء:4)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وروي عن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم، أنه قال من کشف خمار امرأته ونظر إلیها وجب الصداق دخل بها، أو لم یدخل وهذا نص في الباب".

( کتاب النکاح، فصل و أما بیان مایتأکد به المهر، ۲/۲۹۲، ط: دار الكتب العلمية)

المبسوط للسرخسی میں ہے :

"و الدليل عليه أنها تحبس نفسها؛ لاستيفاء المهر، و لاتحبس المبدل إلا ببدل واجب و إن بعد الدخول بها يجب. و لا وجه لإنكاره؛ لأنه منصوص عليه في القرآن."

(كتاب النكاح، باب المهور،5 / 63، ط: بيروت) 

دررالحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"الهدايا التي تأتي في الختان أو الزفاف تكون لمن تأتي باسمه من المختون أو العروس أو الوالد والوالدة وإن لم يذكر أنها وردت لمن ولم يمكن السؤال والتحقيق فعلى ذلك يراعى عرف البلدة وعادتها.

(الخاتمة) إن الأشياء التي ترسل ‌في ‌حفلات كهذه إذا كانت تدفع عرفا وعادة على وجه البدل فيلزم القابض مثلها إذا كانت من المثليات وقيمتها إذا كانت من القيميات وإذا كان لا يرسل بمقتضى العرف والعادة على وجه البدل بل ترسل على طريق الهبة والتبرع فحكمها كحكم الهبة ولا رجوع بعد الهلاك والاستهلاك والأصل في هذا الباب هو أن المعروف عرفا كالمشروط شرطا."

(الكتاب السابع الهبة، الباب الثاني في بيان احكام الهبة، ج:2، ص:482، ط:دار الجيل)

فتاوی شامی میں ہے:

"كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها."

(باب المہر،158/3،سعید)

المبسوط للسرخسی میں ہے :

"و الدليل عليه أنها تحبس نفسها؛ لاستيفاء المهر، و لاتحبس المبدل إلا ببدل واجب و إن بعد الدخول بها يجب. و لا وجه لإنكاره؛ لأنه منصوص عليه في القرآن."

(کتاب النکاح ،باب المہر ،63/5،مطبعۃ السعادة)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".

(کتاب الھبۃ،  الباب الثانی فیما یجوز محن الھبۃ وما لا یجوز، 4/378،رشیدیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501102700

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں